یاد - فیض احمد فیض

 یاد (نظم "دشتِ تنہائی")

فیض احمد فیض

یہ فیض احمد فیض کی ایک مشہور نظم ہے جو ان کے مجموعہ کلام "دشتِ صبا" (1952) میں شامل ہے۔ اس نظم کا پہلا مصرعہ "دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں" اپنی رومانوی گہرائی، جذباتی شدت، اور شاعرانہ خوبصورتی کی وجہ سے اردو ادب میں ایک علامتی مقام رکھتا ہے۔ یہ نظم فیض کی جیل کی زندگی کے دوران لکھی گئی، جب وہ راولپنڈی سازش کیس (1951-1955) کے الزام میں قید تھے۔ 


دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں

تیری آواز کے سائے ترے ہونٹوں کے سراب

دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے

کھل رہے ہیں ترے پہلو کے سمن اور گلاب


اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ

اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم

دور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ

گر رہی ہے تری دل دار نظر کی شبنم


اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے

دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات

یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق

ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات

No comments:

Post a Comment

Popular Posts