بیٹھ جاتا ہوں مٹی پہ اکثر - ہریونش رائے بچن

بیٹھ جاتا ہوں مٹی پہ اکثر

ہریونش رائے بچن


بیٹھ جاتا ہوں مٹی پہ اکثر 

کیونکہ مجھے اپنی اوقات اچھی لگتی ہے ۔۔۔

 

میں نے سمندر سے سیکھا ہے جینے کا سلیقہ 

چپ چاپ سے بہنا اپنی موج میں رہنا 

 

ایسا نہیں کہ مجھ میں کوئی عیب نہیں ہے 

پر سچ کہتا ہوں مجھ میں کوئی فریب نہیں ہے 

 

جل جاتے ہیں میرے انداز سے میرے دشمن 

کیوں کہ ایک مدّت سے میں نے نہ محبت بدلی نہ دوست بدلے 

 

ایک گھڑی خرید کر ہاتھ میں کیا باندھ لی

 وقت پیچھے ہی پر گیا میرے 

 

سوچا تھا گھر بنا کہ رہو گا سکون سے 

پر گھر کی ضرورتوں نے مسافر بنا ڈالا ۔۔

 

سکون کی بات نہ کر اے غالب 

بچپن والا اتوار اب نہیں آتا 

 

شوق تو ماں باپ کے پیسوں سے پورے ہوتے ہیں 

اپنے پیسوں سے تو بس ضرورتیں پوری ہو پاتی ہیں ۔۔

 

زندگی کی بھاگ دور میں کیوں وقت کے ساتھ رنگت کھو جاتی ہے 

ہستی کھیلتی زندگی بھی عام ہو جاتی ہے ۔۔

 

ایک سویرا تھا جب ہنس کر اٹھتے تھے ہم 

اور آج کئی بار بنا مسکراۓ ہی شام گزر جاتی ہے 

 

کتنے دور نکل گئے رشتے کو نبھاتے نبھا تے

خود کو کھو دیا ہم نے اپنو کو پاتے پاتے 

 

لوگ کہتے ہیں ۔۔ ہم مسکراتے بہت ہیں 

اور ہم تھک گئے درد کو چھپاتے چھپاتے ۔۔

 

خوش ہوں اور سب کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہوں 

لا پرواہ ہوں ۔۔ پھر بھی سب کی پرواہ کرتا ہوں 

 

معلوم ہے کوئی مول نہیں میرا

 پھر بھی کچھ انمول لوگوں سے رشتے رکھتا ہوں 

 

بیٹھ جاتا ہوں مٹی پہ اکثر

 کیونکہ مجھے اپنی اوقات اچھی لگتی ہے

  

No comments:

Post a Comment

Popular Posts