فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
مولانا ظفر علی خاں
مولانا ظفر علی خاں اپنے دور کے نامور صحافی اور مدیر روزنامہ ’’زمیندار‘‘ تھے۔ یہ اخبار اپنے وقت میں سیاسی، سماجی اور تہذیبی مسائل کی عکاسی اور عوام میں رائے عامہ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا تھا۔ مولانا برطانوی استعمار کے خلاف کھل کر مقابلہ کرنے کے قائل تھے۔ تحریکِ آزادی میں حصہ لینے کی سزا کے طور پر انہیں سر مائیکل اوڈوائر کے دورِ حکومت میں پانچ سال کی قیدِ بامشقت کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔ وہ تحریکِ خلافت سے بھی گہرے طور پر وابستہ رہے۔
مولانا کی شاعری ان کی سیاسی و سماجی جدوجہد کا اہم ذریعہ تھی۔ ان کی نظموں کے موضوعات اس دور کی سیاسی و سماجی ہلچل کے گرد گھومتے تھے۔
حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی مولانا ظفر علی خاں کے بارے میں درج ذیل رائے ان کی عظمت اور ان کی ہشت صفات (صحافی‘ مترجم‘ نثر نگار‘ مقرر‘ سیاستدان) شخصیت کا روشن اعتراف ہے۔
”ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی خاں نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرہون منت نظر آئیں گی اور سیاسی و صحافتی شعر و ادب تو گویا انہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے“
______________________________________________________
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
______________________________________________________
مولانا نے اپنی شاعری میں قرآنی آیات سے گہرا ربط استوار کیا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس شعر کا مضمون اس قرآن پاک کی آیت سے تعلق رکھتاہے: ؎
اِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنفُسِہِمْ وإذَا أرَادَ اللّٰہُ بَقَوْمٍ سوئًا فَلاَ مردَّ لَہٗ ومَالَہُمْ مِنْ دُوْنہٖ مِن وَال (رعد:۱۱)
ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا:
______________________________________________________
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
مولانا ظفر علی خاں نے ان قرآنی آیات سے اپنے شعر کے لیے خیال اخذ کیا : ؎
یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ
’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں.‘‘
وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸﴾ سورہ الصَّفّ
’’اور اللہ تو اپنے نور کا اتمام کر کے رہے گا‘ اگرچہ یہ کافروں کو کیسا ہی ناگوار گزرے‘‘.
______________________________________________________
زکوٰة اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا اور نماز اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں ہو سکتا
______________________________________________________
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا
______________________________________________________
نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ زیاد کی وہ جفا رہی
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
______________________________________________________