اس دین کی فطرت میں قدرت کے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
(صفی لکھنوی)
اس کو ناقدری¿ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
(برج نرائن چکبست)
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے
(آزاد انصاری)
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہَوا دینے لگے
(ثاقب لکھنوی)
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکے مَیں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
مضطر خیر آبادی

Previous Post Next Post