کلام اقبال اور قرآنی تلمیحات (منتخب مثالیں)
مطلب: ’’اگر میرے دل کا آئینہ جوہر سے خالی ہے اور میرے کلام میں قرآن کے علاوہ کچھ اور پوشیدہ ہے ‘‘-
مطلب: ’’(اگر میں قرآن پاک کے علاوہ کچھ اور کہہ رہا ہوں) تو آپ (ﷺ) میرے فکر کے شرف کا پردہ چاک فرما دیجئے اور خیابان (دنیا)کو میرے کانٹے سے پاک کر دیجیے‘‘-
مطلب: ’’مجھے قیامت کے روز خوار و رسوا کیجیے یعنی اپنے بوسۂ پا سے محروم رکھیئے‘‘-
مطلب: ’’قرآن کریم ہے جو ایک زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم بھی ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی‘‘-
١- لا تخف ( مت ڈرو)
ترجمہ: فرمایا (اے موسیٰ) اسے پکڑ لے اور نہ ڈر، ہم ابھی اسے پہلی حالت پر پھیر دیں گے۔
ترجمہ: ہم نے کہا ڈرو مت بیشک تو ہی غالب ہوگا
ترجمہ: اور ہم نے البتہ موسٰی کو وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا پھر ان کے لیے دریا میں خشک راستہ بنا دے، پکڑے جانے سے نہ ڈر اور نہ کسی خطرہ کا خوف کھا۔
(Pas Che Bayad Kard-26)
مطلب: وہ قرآن ہمیں لا تخف (نہ ڈر) کا درس دیتا ہے ۔ وہی لاتخف کے مقام و مرتبہ پر پہنچاتا ہے ۔
مطلب: مرد حر لاتخف کے ورد سے قوی ہے، ہم تو میدان میں سر جھکائے آتے ہیں ، لیکن وہ موت سے بے خوف سر ہتھیلی پر رکھے نکلتا ہے ۔
مطلب: اے ساقی آ، میرے چہرے سے چہرہ اٹھا دے یعنی حجاب اٹھا دے ۔
میری آنکھ سے میرے دل کا خون ٹپک رہا ہے۔
اس زبان (قرآن کی زبان) سے جو نہ شرقی ہے اور نہ مغربی ۔
لا تخف کے مقام سے صدا پیدا کر ۔ (مراد کہ قرآن کی روشنی سے استفادہ کرتے ہوئے وقت کے فرعونوں سے جہاد کر۔)
مطلب: جب اللہ کا کوئی پیغامبر حضرت موسیٰ کی طرح فرعون جیسے جابر کے پاس پیغام حق لے کر جاتا ہے تو اس کا دل لاتخف سے مضبوط ہو جاتا ہے ۔
٢- لا یخلف المیعاد ( وعدہ خلافی نہیں کرتا)
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ (سورہ ال عمران ٩:٣)
بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کیا کرتا
Indeed, Allah does not fail in His promise
(Bang-e-Dra-170) Gharcha Tu Zindani-e-Asbab Hai
معا نی: قرآنی آیت ۔ لا یخلف المیعاد: اللہ تعالیٰ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا، یعنی اچھے عملوں پر بخشش کا وعدہ ۔مطلب: اے مسلمان! تیرے روبرو ہر گھڑی قرآن کی یہ آیت ہونی چاہیے کہ اللہ کے وعدے جھوٹے نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ سچے ہوتے ہیں ۔
اس نظم کے تیسرے شعر میں ’’سورۃ العمران، آیت:نو‘‘ جبکہ آخری شعر میں ’’سورۃ لقمان، آیت: تینتیس‘‘ کا کچھ حصہ لیا گیا ہے-
معانی: تو اگر مسلمان ہے تو اپنے دل میں عظمت اسلام اور ملت اسلامیہ کی ترقی و سربلندی کی آرزو زندہ رکھ اور اس قرآنی آیت کو ہر وقت اپنے سامنے رکھ کہ خدا تعالیٰ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔
٣-حبل اللہ (اللہ کی رسی)
ترجمہ: ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو سب مل کر‘‘
ترجمہ: ’’ آ گاہ رہو! میں تمہارے مابین دو خزانے چھوڑے جا رہا ہوں‘ اُن میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے‘ وہی حبل ُ اللہ ہے…‘‘
ترجمہ: ’’یقینا یہ قرآن حبل ُاللہ اور نورِ مبین ہے‘‘.
ترجمہ: ’’یہ قرآن اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے‘‘.
معانی: ’’وحدتِ آئین ہی مسلمان کی زندگی کا اصل راز ہے اور ملتِ اسلامی کے جسدِ ظاہری میں روح ِ باطنی کی حیثیت صرف قرآن کو حاصل ہے. ہم تو سرتاپا خاک ہی خاک ہیں‘ ہمارا قلبِ زندہ اور ہماری روحِ تابندہ تو اصل میں قرآن ہی ہے. لہذا اے مسلمان! تو قرآن کو مضبوطی سے تھام لے کہ ’حبل اللہ‘ یہی ہے‘‘.
٤-قُلِ الْعَفْوَ
”یَسْئَلُونَکَ ما ذا یُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ“۔ (البقرہ:219)ترجمہ:”تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں‘ کہہ دے (جائز ضرورتوں سے )جو کچھ بچے وہ (خدا کی راہ میں) خرچ کردیا جائے“
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
معانی: قل العفو: قرآن مجید کی ایک آیت کی طرف اشارہ ہے جس کے معنی ہے کہ اے نبی ﷺ یہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ۔ تم کہہ دو قل العفو یعنی تمہاری جائز ضرورتوں سے جو کچھ بھی زیادہ ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو ۔ پوشیدہ: چھپی ہوئی ۔ نمودار: ظاہر ۔مطلب: علامہ نے اس آخری شعر میں مسلمان کو قرآن پڑھ کر نظام اقتصادیات کو سمجھنے اور سمجھانے کا جو طریقہ استعمال کیا ہے اس کے لیے قل العفو (اپنی جائز ضرورت سے جو کچھ زیادہ ہے خرچ کردو) کی طرف اشارہ کیا ہے اور امید رکھی ہے کہ شاید اس دور میں غلط نظریات سے تنگ آ کر لوگ صحیح فکر کی تلاش میں قرآن اور اسلام کی طرف رجوع کریں اوراس حقیقت کو ظاہر کرتے ہوئے جو قل العفو والی آیت میں موجود ہے دنیا کے سامنے اسلامی نظام اور اقتصادیات کا وہ تصور پیش کریں جس سے تقریباً بارہ تیرہ سو سال انسانی فلاح کا کام کیا ہے ۔ اور آج ہم انگریزی اور مغربی تہذیب و تمدن اور افکار سیاسیات و اقتصادیات کی بنا پر اسے بھول چکے ہیں اور اشتراکیت جیسی مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ اگر مسلمان قرآن پاک پر عمل کرنا شروع کریں تو امید ہے کہ یہ حقیقت دنیا پرآشکارا ہوجائے گی۔ اور محنت اور سرمایہ کے درمیان جو کشاکش جاری ہے اس کے ختم ہونے کی صورت پیدا ہوجائے گی یا کم از کم اسلامی معاشرہ اس مصیبت سے محفوظ رہے گا.
٥-لا تذر
ترجمہ:اور (پھر) نوحؑ نے (یہ) دعا کی کہ میرے پروردگار اگر کسی کافر کو روئے زمین پر بسا نہ رہنے دے.
دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لا تذر میں
____________________________________
٦- وَرَفَعْنَا لَک ذِکْرَک
معانی: ابد تک: رہتی دنیا تک ۔ رفعتِ شان: عظمت اوربڑائی کی بلندی ۔ رفعنا لک ذکرک: قرآن کی ایک آیت کا ٹکرا ہم نے تیری خوشی کی خاطر تیرا نام بلند کر دیا ۔مطلب: دنیا بھر کی قو میں قیامت تک یہ منظر دیکھتی رہیں گی کہ رب ذوالجلال نے حضور اکرم کا تذکرہ اور مرتبہ بلند رکھنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ کس انداز میں پورا کیا جاتا رہا ہے ۔ مراد یہ کہ آنحضرت کے نام کے ساتھ توحید اور رسالت بھی ہمیشہ قائم رہے گی اور یہ وعدہ ضرور پورا ہوتا رہے گا ۔
٧- وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہاً آخَرَ
اقبال نے ’’وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہاً آخَرَ‘‘ کے فقروں کو جو مختلف آیات کا جز وہے تلمیح کے طور پر اپنے کلام میں صرف ایک بار ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’’لاہور وکراچی‘‘ میں استعمال کی:
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غُیور
موت کیا شے ہے، فقط عالَمِ معنی کا سفر
اُن شہیدوں کی دِیَت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خُوں جن کا حرم سے بڑھ کر
آہ! اے مردِ مسلماں تجھے کیا یاد نہیں
حرفِ ’لا تَدعُ مَعَ اللہِ الٰھاً آخر‘
فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّـٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَكُـوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ (سورۃ الشعراء 213)
ترجمہ: سو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار ورنہ تو بھی عذاب میں مبتلا ہو جائے گا۔
____________________________________
٨-حتّٰی تنفقوا
دل ز ’’حتّٰی تنفقوا‘‘ محکم کند
زر فزاید اُلفت زر کم کند
مطلب: یہ (زکواۃ) حتیٰ تنفقو کے ارشاد ربانی سے دل کو مضبوط کرتی ہے ۔ دولت کو برکت عطا کرتی اور اس (دولت) میں محبت میں کمی کا باعث بنتی ہے ۔
پہلا مصرع پارہ نمبر چار کی پہلی قرآنی آیت کا حصہ ہے-
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّـٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَىْءٍ فَاِنَّ اللّـٰهَ بِهٖ عَلِـيْمٌ (سورۃ آل عمران 92)
ترجمہ: ہرگز نیکی میں کمال حاصل نہ کر سکو گے یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز سے کچھ خرچ کرو، اور جو چیز تم خرچ کرو گے بے شک اللہ اسے جاننے والا ہے۔
____________________________________
٩-لا تحزنو
خرقۂ ’’لا تحزنو‘‘ اندر برش
’’انتم الاعلون‘‘ تاجی بر سرش
اس شعر میں سورۃ العمران (آیت: ایک سو انتالیس) کا کچھ حصہ شامل ہے -ارشادِ ربانی ہے:
’’وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘
ترجمہ: اور سست نہ ہو اور غم نہ کھاؤ اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
____________________________________
١٠-لیس للانسان الا ماسعی
کم حق ہے ’’لیس للانسان الا ماسعی‘‘
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار
شعر کے پہلے مصرع میں ’’سورۃ نجم،آیت:انتالیس‘‘ہے -
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (39)
ترجمہ: اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو کرتا ہے۔
اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اللہ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)۔ (عرفان القرآن)
____________________________________
١١- یَنسِلُوْنَ
قرآن مجید میں سورہ یونس، آیت اکیاون میں ’’وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْن‘‘ کاذکر ہے۔سورہ الانبیاء، آیت چھیانوے میں ہے ’’حَتّٰی إِذَا فُتِحَتْ یَأ ْجُوْجُ وَمَا ْجُوْجُ‘‘ کے الفاظ ہیں جبکہ اسی آیت کا آخری فقرہ ’’یَنسِلُوْنَ‘‘ ہے۔
اَثُـمَّ اِذَا مَا وَقَـعَ اٰمَنْتُـمْ بِهٖ ۚ آلْاٰنَ وَقَدْ كُنْتُـمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ (سورہ یونس 51) ↖
کیا پھر جب وہ آ چکے گا تب اس پر ایمان لاؤ گے، اب مانتے ہو اور تم اس کی جلدی کرتے تھے۔
حَتّــٰٓى اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُـمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ (سورہ الانبیاء 96)
یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے چلے آئیں گے۔
دیکھئے اقبال نے ان آیات کی تلمیحات کو کس طرح استعمال کیا ہے:
محنت وسرمایہ دنیا میں صف آرا ہوگئے
دیکھئے ہوتا کس کس طرح تمناؤں کا خون
حکمت وتدبیرسے یہ فتنۂ پرآشوب خیز
ٹل نہیں سکتا وَقَدْ کُنتُم بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْن
کھل گئےیاجوج وماجوج کے لشکر تمام
چشم ِ عالم دیکھ لے تفسیرحرفِ یَنْسِلُوْنَ
____________________________________
١٢-علم الاسماء
مدعائے علم الاسماء ستے
سرِّ سبحان الّذی اسرا ستے
پہلے مصرع کی تلمیح ’’سورۃ البقرہ،آیت: اکتیس، ’’وَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَائَ کُلَّہَا‘‘ - اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔ (عرفان القرآن) ،
جبکہ دوسرے مصرع کی تلمیح ’’سورۃ بنی اسرائیل،آیت:ایک ہے -
’’سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَیٰ بِعَبْدِہِ‘ ۔
ترجمہ: وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔(عرفان القرآن)
____________________________________
١٣-ختمِ نبوت
اے ترا حق خاتمِ اقوام کرد
بر تو ہر آغاز را انجام کرد
پہلے مصرع میں اقبالؒ نے آقائے دو جہاں (ﷺ) کے وصف ِ ختمِ نبوت کا ذکر کیا ہے جو ’’سورۃ الاحزاب،آیت: چالیس کی تلمیح ہے:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّـٰهِ وَخَاتَـمَ النَّبِيِّيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمًا (40)
ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ? نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔ (عرفان القرآن)
دوسرا مصرع ’’سورۃ المائدہ،آیت:تین کی تلمیح ہے۔
الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی۔ (عرفان القرآن)۔
____________________________________
١٤- شَرَاباً طَہُوْراً
قرآن مجید میں ’’شَرَاباً طَہُوْراً‘‘ کاذکر ہوا ہے۔ اس تلمیح سے اقبال کے کلام میں صرف ایک ہی شعر ’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’عشرت امروز‘‘ میں ہے:
نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش وسرور
نہ کھینچ نقشہ ٔ کیفیت شراب طہور
اقبال نے یہ تلمیح سورہ الدہر کی آیت اکیس کے اس فقرے سے اخذ کی ہے، فرمایا گیا:
ترجمہ:’’اور ان کا رب ان کو پاکیزہ شراب پلائے گا‘‘
____________________________________
١٥- سَلْسَبِیْلاً
قرآن مجید میں ’’سَلْسَبِیْلاً‘‘ کاذکر ہوا ہے۔ یہ تلمیح اقبال کے کلام میں صرف ’’بانگ درا‘‘ کیاشعار میں آئی ہے۔ پہلا شعر ’’عشرت امروز‘‘ کا ہے اور دوسرا ’’صحرانووردی‘‘ کا ہے:
مجھے فریفتۂ ساقی جمیل نہ کر
بیانِ حور نہ، ذکر سلسبیل نہ کر
اقبال نے سلسبیل کی تلمیح سورہ الدہر کی آیت سترہ اوراٹھارہ سے اخذ کی ہے، فرمایا گیا
ترجمہ: ’’ان (جنتیوں) کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔یہ جنت کا ایک چشمہ ہوگا جسے سلسبیل کہاجاتا ہے.‘‘
اقبال نے یہاں شعر کے پہلے مصرع میں ’’ساقی جمیل‘‘ کی ترکیب سورہ الدہر کی آیت انیس سے اخذ کی ہے، فرمایا گیا
ترجمہ: ’’ان (جنتیوں) کی خدمت کیلئے ایسے لڑکے دوڑتے پھررہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھردیئے گئے ہیں‘‘۔
____________________________________
١٦- رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ
ترجمہ: اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں،
____________________________________
١٧- نَخْلٍ خَاوِيَة
ترجمہ: "وہ ان پر سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار چلتی رہی (اگر تو موجود ہوتا)، اس قوم کو اس طرح گرا ہوا دیکھتا کہ گویا کہ گھری ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں"
____________________________________
١٨- الْقِصَاصِ
مطلب: قاضی نے کہا یہ معاملہ تو قصاص کا ہے اور ارشاد قرآنی کے مطابق قصاص ہی زندگی ہے ۔ اسی قانون کے ذریعے سے زندگی استوار ہوتی ہے ۔
ترجمہ: اور اے عقل مندو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم (خونریزی سے) بچو۔
____________________________________
١٩- يَسْفِكُ الدِّمَا
____________________________________
٢٠- آفل
ترجمہ: پھر جب رات نے اس پر اندھیرا کیا تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
٢١- اقراء
٢٢- دَخَلُوا قَرْيَةً
مطلب: پرچم حق بادشاہوں نے سرنگوں کر دیا ۔ یوں ان کی مداخلت سے بستیاں تباہ و برباد ہو گئیں ۔ بے شک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل و خوار کر دیتے ہیں۔
ترجمہ: کہنے لگی بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں اسے خراب کر دیتے ہیں اور وہاں کے سرداروں کو بے عزت کرتے ہیں، اور ایسا ہی کریں گے۔
٢٣- وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ
ترجمہ: اور اس نے آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کو اپنے فضل سے تمہارے کام پر لگا دیا ہے، بے شک اس میں فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
٢٤- خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا
ترجمہ: سو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں نکما پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آؤ گے۔
٢٥- تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! کیو ں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔اللہ کے نزدیک بڑی نا پسند بات ہے جو کہو اس کو کرو نہیں۔
٢٦- آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَ فِي أَنفُسِهِمْ
ترجمہ: عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا ان کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
٢٧-کن فیکوں
مطلب: خدائے عزوجل نے ایک لفظ کن کے ذریعے کائنات کو تخلیق کیا ۔ آج تک کانوں میں یہی لفظ بار بار گونج رہا ہے ۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کائنات ابھی تک ناتمام ہے اور پایہ تکمیل کو نہیں پہنچی ۔
اقبال اپنی نظم شمع میں کہتے ہیں :
معانی: دلستان: دل لینے، چھیننے والا ۔ صبحِ ازل: کائنات کے وجود میں آنے سے بھی پہلے کی صبح ۔ آوازِ کن: ہو جا کی آواز قرآنی آیت ہے جب خدا کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو فرماتا ہے ہو جا اور وہ پیدا ہو جاتی ہے ۔
ترجمہ: آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اور جب کوئی چیز کرنا چاہتا ہے تو صرف یہی کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، سو وہ ہو جاتی ہے۔
ترجمہ: اس کی تو یہ شان ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اتنا ہی فرما دیتا ہے کہ ہو جا، سو وہ ہو جاتی ہے۔
ترجمہ: اس سے مانگتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، ہر روز وہ ایک کام میں ہے۔
٢٨- فاصحبتم
آیہ فاصحبتم اندر شان کیست
مطلب: علم و حکمت کس کے دسترخوان کا ریزہ ہے۔ فاصحبتم کی آیت (تم ان کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے) کس کی شان میں نازل ہوئی۔
یہ شعر قران کریم کی مندرجہ زیل آیت کی تمثیل ہے جن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
ترجمہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
٢٩- لن ترانی
معانی: اسرار: راز ۔ نہانی: خفیہ ۔ لن ترانی: تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ۔مطلب: مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جب دنیا فسق و فجور سے بھر جائے گی تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ایک ایسا مہدی بھیجے گا جو باطل کی قوتوں کو مٹا کر رکھ دے گا ۔ اسلام کا ڈنکا نئے سرے سے بجے گا ۔ اس آنے والے کو وہ آخری زمانے کا مجدد سمجھتے ہیں ۔ اس کو اقبال نے مہدی اور آخر زمانی کے لقبوں سے یاد کیا ہے ۔ اس رباعی کے مطابق اب وہ دور آ گیا ہے جب کائنات کے تمام راز ہائے سربستہ کھلے چلے جا رہے ہیں ۔ اب وہ زمانہ بھی نہیں رہا کہ حضرت موسیٰ کی طرح جواب ملے لن ترانی یعنی تم ہمارا جلوہ نہیں دیکھ سکتے ۔ چنانچہ بقول اقبال اب تک تو صورت حال اس مرحلے تک آ پہنچی ہے کہ جو شخص بھی اول اول خودی کی معرفت حاصل کر سکا وہی مہدی آخر الزمان ٹھہرے گا ۔
ترجمہ: اور جب موسٰی ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے رب مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں! فرمایا کہ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا لیکن تو پہاڑ کی طرف دیکھتا رہ اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو تو مجھے دیکھ سکے گا، پھر جب اس کے رب نے پہاڑ کی طرف تجلی کی تو اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کی کہ تیری ذات پاک ہے میں تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا یقین لانے والا ہوں۔
٣٠- اولی الامر منکم
مطلب: یا تو وہ اولی الامر منکم ، جس کی شان ہے اور خدا کی یعنی قرآن کریم کی آیت اس سلسلے میں دلیل ہے ۔ یعنی صاحب اقتدار اہل ایمان ہو، رسول اللہ کا اطاعت گزار اور حضور کے فرمودہ اصولوں کے مطابق حکمرانی کرتا ہو، اور جو حکمران اسلامی نظریات سے بیگانہ ہو اسے حاکم نہیں ماننا چاہیے نہ خراج دینا چاہیے ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں، پھر اگر آپس میں کسی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لاؤ اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو، یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے۔
٣١- اُمَّةً وَّّسَطًا
مطلب: اے ملت اسلامیہ! کیا قرآن مجید کی وہ آیت تجھے معلوم نہیں جس میں تجھے امت عادل کا خطاب ملا ۔
مطلب: زمانے کے چہرے کی رونق اور تازگی تیرے ہی دم سے ہے تو اس دنیا میں تمام قوموں کے لیے گواہی دینے والی ہے ۔ اس میں اشارہ قرآن مجید کی اس آیت کی طرف ہے اور ہم نے تمہیں نیک ترین اور عادل ترین امت ہونے کا درجہ عطا فرمایا تاکہ تم تمام انسانوں کے لیے گواہی دینے والے ہو اور تمہارے لیے رسول اللہ گواہی دینے والے ہیں (البقرہ) ۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اُمَّةً وَّّسَطًا لِّتَكُـوْنُـوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَـةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَيْهِ ۚ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْـرَةً اِلَّا عَلَى الَّـذِيْنَ هَدَى اللّـٰهُ ۗ وَمَا كَانَ اللّـٰهُ لِيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْـمٌ (سورۃ البقرۃ 143) ↖
ترجمہ : اور اسی طرح ہم نے تمہیں برگزیدہ امت بنایا تاکہ تم اور لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو، اور ہم نے وہ قبلہ نہیں بنایا تھا جس پر آپ پہلے تھے مگر اس لیے کہ ہم معلوم (الگ) کریں اس کو جو رسول کی پیروی کرتا ہے اس سے جو الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بے شک یہ بات بھاری ہے سوائے ان کے جنہیں اللہ نے ہدایت دی، اور اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا، بے شک اللہ لوگوں پر بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
____________________________________
٣٢- لا تفسدو
مطلب: تو خدا کی زمین کو اپنی زمین سمجھتا ہے تو پھر ذرا یہ تو بتا کہ آیہ لا تفسدو کی تفسیر (شرح) کیا ہے ۔
وَاِذَا قِيْلَ لَـهُـمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ (سورۃ البقرۃ 11)
ترجمہ : اور جب اُنہیں کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
٣٣- آیہ تسخیر
ترجمہ :اور اس نے تمہارے لیے مسخر کیا رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو اور ستارے بھی اس کے حکم کے تابع ہیں اور اس کی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔
٣٤- صاحبِ مازاغ
معانی: فروغ: ترقی، سربلندی ۔ خیرہ کرنا: آنکھوں کو چندھیانا ۔ صاحبِ مازاغ: حضرت محمد ﷺ مازاغ سورۃ النجم کی ایک آیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں شب معراج کا اشارۃً ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے ما زاغ البصر وما طغی کہ نبی ﷺ کی نظر نے جو کچھ دیکھا وہ بالکل درست دیکھا ۔ ان کی نگاہ نہ ادھر سے ادھر ہوئی اور نہ حد سے بڑھی ۔مطلب: اہل مغرب نے جو بھی اور جیسی بھی ترقی کی ہے علامہ اقبال اسے فطرت میں مداخلت سمجھتے ہیں ۔ ا س ترقی نے چونکہ انسان کو انسان نہیں رہنے دیا اس لیے علامہ مسلمان کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری نظریں اہل مغرب کی ترقی اور سربلندی دیکھ کر چندھیا رہی ہیں حالانکہ یہ ترقی ترقی نہیں انسانی زوال کا دوسرا نام ہے ۔ اس لیے میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہستی جس کی نظر نے شب معراج سب کچھ دیکھا اور سچ دیکھا یعنی حضرت محمد ﷺ کی ہستی تیری نگہبان ہو اور تجھے صحیح نظر سے مغربیوں کی ترقی دیکھنے کی توفیق نصیب کرے ۔
ترجمہ : جب کہ اس سدرۃ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا (یعنی نور)۔ نہ تو نظر بہکی نہ حد سے بڑھی۔ بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔
٣٥- اِنَّ المَلُوک
معانی: رمز: اشارہ، بھید، حقیقت ۔ ان الملوک: سورہ نمل آیت 34 جب بادشاہ کسی گاؤں قصبے میں فتح کے بعد داخل میں ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں ۔ اقوامِ غالب: غلبے والی، حکمران قو میں ۔ جادوگری: جادو، دھوکے فریب کا انداز ۔مطلب: شاعر نے چونکہ خضر سے استفسارات میں سلطنت کے بارے میں بھی سوال کیا تھا کہ اس کی نوعیت کیا ہے چنانچہ اس کے جواب میں خضر نے کہا کہ اے شاعر! آ میں تجھے اس حوالے سے قرآن پا ک کی ایک سورہ کی معنویت بتاتا ہوں جس میں کہا گیا ہے کہ سلطنت صرف اور صرف طاقتور لوگوں کی طرف سے کمزور لوگوں کا استحصال کرنے اور ان پر حکمرانی کرنے کا نام ہے ۔ یہ عمل تو ایک ایسے طلسم کی مانند ہے کہ اگر کوئی کمزور قوم یا فرد اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور استحصالی قوتوں کی خلاف نبرد آزما ہوتا ہے تو طاقتور حکمران اپنے سحر انگیز حربوں سے ان کی قوت مدافعت کو ختم کر دیتا ہے ۔ اس طرح اپنا جابرانہ نظام مسلط کیے رکھتے ہیں ۔ اے شاعر! جان لے کہ ایسے حکمران جب غلام قوموں پر اپنا طلسم بکھیرتے ہیں تو وہ طوق غلامی پر بھی فخر کرنے لگ جاتے ہیں ۔
قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَجَعَلُوٓا اَعِزَّةَ اَهْلِهَآ اَذِلَّـةً ۚ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ (سورۃ النمل 34)
ترجمہ : کہنے لگی بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں اسے خراب کر دیتے ہیں اور وہاں کے سرداروں کو بے عزت کرتے ہیں، اور ایسا ہی کریں گے۔
٣٦- كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ .
مطلب: ان تمام اشعار کے پس منظر میں اقبال یہ کہتے ہیں کہ اس جہان کا اول و آخر غرض ہر شے کا مقصد فنا کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ یہ شعر عملاً قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا مزا ضرور چکھنا ہے یعنی کہ موت ہر شے کا مقدر ہے ۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ آغاز ہو یا انجام ظاہر ہو یا باطن! کوئی تخلیق نئی ہو یا پرانی! بالاخر اس کی منزل فنا کے سوا اور کچھ نہیں ۔
﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ... ١٨٥﴾...آل عمران
ترجمہ : "ہر جاندار موت کا مزہ چکھے گا۔"
٣٧- وفدینہ بذبح عظیم
ترجمہ : اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیا۔
مطلب: ان کے والد ماجد حضرت علی علیہ السلام بسم اللہ کی ب تھے اور فرزند یعنی امام حسین قرآن مجید کی آیت ، وفدینہ بذبح عظیم کا مطلب و مفہوم بن گئے، ۔
٣٨- خدا نور ہے
٣٩- اتی الرحمٰن عبدا
ترجمہ : جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ان میں سے ایسا کوئی نہیں جو رحمان کا بندہ بن کر نہ آئے۔
٤٠- شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے
ترجمہ : اے ایمان والو! بہت سے عالم اور درویش لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔
معانی: کیفیت: حالت، صورت حال ۔ حیرت انگیز: حیرانی بڑھانے والا ۔ سروش: فرشتہ ۔مطلب: میں نے ایک فرشتے سے اس سرد ترین مقام کے بارے میں استفسار کیا تو اس کا جواب بے حد حیران کن تھا ۔
معانی: نار: آگ ۔ نور: روشنی ۔ تہی آغوش: جس کے گود خالی ہو، مراد خالی ۔ جہنم: دوزخ ۔مطلب: فرشتے نے کہا کہ یہی سرد مقام جہنم ہے جو ہر نوع کی جو ہر طرح کی حرارت اور روشنی سے خالی ہے ۔
معانی: مستعار: دوسروں سے مانگے ہوئے ۔ لرزاں : کانپنے والا ۔ مردِ عبرت کوش: دوسروں کے برے انجام سے سبق لینے والا انسان ۔مطلب: اس کے وہ شعلے جن سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ خوفزدہ ہیں عملاً مانگے کے ہوتے ہیں ۔
معانی: انگار: شعلے، آگ ۔ اپنے ساتھ لانا: مراد اپنے بُرے اعمال آگ کی صورت میں لانا ۔مطلب: البتہ یہ ضرور ہے کہ جو گنہگار یہاں سزا کے طور پر لائے جاتے ہیں وہ اپنے حصے کی آگ اور شعلے بھی ہمراہ لاتے ہیں ۔
٤١- اللہ نور السموات والارض
معانی: خرد: عقل ۔ لا الہ: کلمہ طیبہ کی طرف اشارہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔
مطلب: اگر ہم جہان کو چاند اور سورج کی اس گردش کے اعتبار سے دیکھیں جس کی وجہ سے اس میں شام اور صبح ہونے کا عمل جاری ہے تو جہان کا وجود مادہ کی وجہ سے نظر آئے گا ۔ اگر جہان کو اس طرح دیکھنے والی عقل اپنی راہ چھوڑ کر وجدان کی راہ اختیار کرے اور دل کی نظر سے اسے دیکھے تو اس پر یہ راز کھل جائے گا کہ جہان سورج اور چاند کی وجہ سے روشن نہیں ہے بلکہ لا الہ کے نور سے روشن ہے ۔
معانی: فقط: صرف ۔ فروغ: چمک دمک ۔ مہر: سورج ۔ مہ: چاند ۔مطلب: چاند ستاروں اور سورج کی روشنی بھی اسی نور سے پیدا ہوئی ہے ۔ اس رباعی میں اقبال نے مادہ پرستوں کے اس نظریہ کو پیش کرتے ہوئے کہ جہان مادہ سے پیدا ہواے ہے ۔ اس کی نفی کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ جہان اللہ تعالیٰ کے نور کی وجہ سے موجود ہے ۔ کائنات اور اس کی ہر شے کو اگر دل کی آنکھ وا کر کے دیکھا جائے تو ہمیں ہر ذرہ میں اس کے خالق اللہ تعالیٰ کے نور کا ظہور ملے گا ۔ قرآن کریم کی آیت اللہ نور السموات والارض (اللہ زمینوں آسمانوں کا نور ہے) اسی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
ترجمہ : اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے، قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارا ہے زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو، روشنی پر روشنی ہے، اللہ جسے چاہتا ہے اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
٤٢- کم لبثتم
ترجمہ : اور اسی طرح ہم نے انہیں جگا دیا تاکہ ایک دوسرے سے پوچھیں، ان میں سے ایک نے کہا تم کتنی دیر ٹھہرے ہو، انہوں نے کہا ہم ایک دن یا دن سے کم ٹھہرے ہیں، کہا تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنی دیر تم ٹھہرے ہو، اب اپنے میں سے ایک کو یہ اپنا روپیہ دے کر اس شہر میں بھیجو پھر دیکھے کون سا کھانا ستھرا ہے پھر تمہارے پاس اس میں سے کھانا لائے اور نرمی سے جائے اور تمہارے متعلق کسی کو نہ بتائے۔
٤٣- ھن لباس لکم و انتم لباس لھن
مطلب: قرآن مجید کے بیان کے مطابق عورتیں مردوں کی برہنگی کو چھپانے کے لیے لباس ہیں دل لبھانے والا حسن عشق کے لیے پیراہن بن گیا ۔ یہاں قرآن مجید کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے ھن لباس لکم و انتم لباس لھن۔ معنی عورتیں تمہار لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو ۔
ترجمہ : تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں سے مباشرت کرنا حلال کیا گیا ہے، وہ تمہارے لیے پردہ ہیں اور تم ان کے لیے پردہ ہو،
٤٤- انا عرضنا
ترجمہ : ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی پھر انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور اسے انسان نے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم بڑا نادان تھا۔
٤٥- أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ
مطلب: اللہ کا فیصلہ یہی ہے کہ دنیا نیکوں کا حصہ ہے ، اس کا جلوہ مومن کی آنکھ کے حوالے کیا گیا ۔ یہاں اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ ، بیشک یہ زمین میرے نیک بندوں کی وراثت ہے ۔
ترجمہ : اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین پر مالک ہوں گے میرے نیک بندے۔(از معارف القرآن)
٤٦- یوم النشور
مطلب: میں نے تجھے صرف اپنی مصلحت یا فائدے کی خاطر مسلمان کہہ دیا۔ (یعنی دل سے نہیں مانا یا تمہارا عمل مسلمانی والا نہیں تھا۔) تیرے اندر وہ جوش، وہ تڑپ یا وہ پختہ یقین نہیں ہے جو قیامت کے دن (یوم النشور) کے تصور سے ایک سچے مسلمان میں ہونا چاہیے۔ اس سے مراد ایمان کی وہ گرمجوشی اور آخرت کی فکر ہے جو انسان کو نیک عمل پر ابھارتی ہے۔ اقبال اس شخص کو مخاطب کر رہے ہیں جو نام کا تو مسلمان ہے لیکن اس کے کردار، عقیدے یا روح میں وہ حقیقی اسلامی جوش، آخرت کا خوف یا نیک عملی کا جذبہ نہیں جو ایک سچے مسلمان کی پہچان ہے۔ گویا یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کسی کو زبانی کلامی مسلمان کہنا ایک الگ بات ہے، اور اس کے اندر اسلامی روح کا ہونا بالکل مختلف۔
وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ ﴿٩ فاطر﴾
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ﴿١٥ الملك﴾
No comments:
Post a Comment