کلام اقبال اور قرآنی تلمیحات (منتخب مثالیں)

کلام اقبال اور قرآنی تلمیحات (منتخب مثالیں)


کلامِ اقبالؒ کے عمیق مطالعے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اقبالؒ کا اندازِ فکر و نظر قرآنی ہے۔اقبال کے نزدیک قرآن اللہ کی آخری نازل کردہ کتاب ہے جس میں ابدی حکمت سے معمور رہنما ئی کا بحر بیکراں موجزن ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک قرآن تمام انسانوں کے لیے ہے۔ قرآن مجید فکرِ اقبال کا نمایاں ترین منبع و مآخذ ہے اور اقبال ؒ اپنی ارفع ترین علمی و فکری اور روحانی سطح پر قرآن مجید کے اسرار و رموز، اسرارِ تکوین ِ حیات اور حکمت و معرفت کی گہرائی بیان کرتے ہیں۔ کلام اقبال میں تلمیحات کا استعمال نہایت دل نشیں انداز میں کیا گیا ہے۔

اقبالؒ کا سارا کلام اپنے اندر روحِ قرآن کو سموئے ہوئے ہے شاید ان کا ایک شعر بھی ایسا نہیں جو کسی قرآنی آیت کی تفسیر اور مفہوم سے خالی ہو-خود اقبالؒ کا یہی دعویٰ ہے اور رموزِ بیخودی کی نظم ’’عرضِ حال مُصنّف بحضور رحمتہ اللعالمین‘‘ اسی حقیقت کا اظہار ہے جس میں اقبالؒ بارگاہِ سرورِ کونین (ﷺ)میں عرض گزار ہیں کہ :

گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحرفم غیر قرآں مضمر است
مطلب: ’’اگر میرے دل کا آئینہ جوہر سے خالی ہے اور میرے کلام میں قرآن کے علاوہ کچھ اور پوشیدہ ہے ‘‘-
پردۂ ناموس فکرم چاک کن
ایں خیاباں را ز خارم پاک کن
مطلب: ’’(اگر میں قرآن پاک کے علاوہ کچھ اور کہہ رہا ہوں) تو آپ (ﷺ) میرے فکر کے شرف کا پردہ چاک فرما دیجئے اور خیابان (دنیا)کو میرے کانٹے سے پاک کر دیجیے‘‘-

آپؒ اسی بات کے تسلسل میں مزید فرماتے ہیں کہ :
روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسئہ پا کن مرا
مطلب: ’’مجھے قیامت کے روز خوار و رسوا کیجیے یعنی اپنے بوسۂ پا سے محروم رکھیئے‘‘-

اقبالؒ اپنے کلام میں قرآن کریم کی حقانیت،آفاقیت و ہمہ گیریت اور ازلی و ابدی حکمت کا برملا اعتراف یوں کرتے ہیں :
آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ اُو لایزال است و قدیم
مطلب: ’’قرآن کریم ہے جو ایک زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم بھی  ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی‘‘-

١- لا تخف ( مت ڈرو)

سورہ طہ میں ارشاد ربّانی ہے:
قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ ۖ سَنُعِيْدُهَا سِيْـرَتَـهَا الْاُوْلٰى (سورہ طہ ٢٠:٢١) 
ترجمہ: فرمایا (اے موسیٰ) اسے پکڑ لے اور نہ ڈر، ہم ابھی اسے پہلی حالت پر پھیر دیں گے۔

 

قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى (سورہ طہ ٢٠:٦٨)
ترجمہ: ہم نے کہا ڈرو مت بیشک تو ہی غالب ہوگا

 

وَلَقَدْ اَوْحَيْنَـآ اِلٰى مُوْسٰٓى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِىْ فَاضْرِبْ لَـهُـمْ طَرِيْقًا فِى الْبَحْرِ يَبَسًاۙ لَّا تَخَافُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى (سورہ طہ ٢٠:٧٧)
ترجمہ: اور ہم نے البتہ موسٰی کو وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا پھر ان کے لیے دریا میں خشک راستہ بنا دے، پکڑے جانے سے نہ ڈر اور نہ کسی خطرہ کا خوف کھا۔

(Bal-e-Jibril-036)
اقبال   کہتے ہیں  :
مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی 
اب بھی درختِ طُور سے آتی ہے بانگِ’ لاَ تَخَفْ‘

(Pas Che Bayad Kard-26)
خطاب بہ پادشاہ اسلام اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ ایدہ اللہ بنصرہ (بادشاہ اسلام اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ سے خطاب)

می دھد ما را پیام لا تخف
می رساند بر مقام لا تخف
مطلب: وہ قرآن ہمیں لا تخف (نہ ڈر) کا درس دیتا ہے ۔ وہی لاتخف کے مقام و مرتبہ پر پہنچاتا ہے ۔

(Pas Che Bayad Kard-08)
 اقبال اپنی نظم  مرد حر (آزاد مرد )  میں   کہتے ہیں  :
مرد حر محکم ز ورد لا تخف
ما بمیدان سر بجیب او سر بکف
مطلب: مرد حر لاتخف کے ورد سے قوی ہے، ہم تو میدان میں سر جھکائے آتے ہیں ، لیکن وہ موت سے بے خوف سر ہتھیلی پر رکھے نکلتا ہے ۔

(Armaghan-e-Hijaz-Farsi-27)
اقبال اپنی نظم "حضور ملت"  میں   کہتے ہیں  :
بیا ساقی نقاب از رخ برافگن
چکید از چشم من خون دل من
بہ آن لحنے کہ نے شرقی، نہ غربی است
نواے از مقام لا تخف زن
مطلب: اے ساقی آ، میرے چہرے سے چہرہ اٹھا دے یعنی حجاب اٹھا دے ۔
میری آنکھ سے میرے دل کا خون ٹپک رہا ہے۔ 
 اس زبان (قرآن کی زبان) سے جو نہ شرقی ہے اور نہ مغربی ۔ 
 لا تخف کے مقام سے صدا پیدا کر ۔ (مراد کہ قرآن کی روشنی سے استفادہ کرتے ہوئے وقت کے فرعونوں سے جہاد کر۔)

(Rumuz-e-Bekhudi-05)
در معنی ایں کہ یاس و حزن و خوف ام الخباءث است و قاطع حیات و توحید از الہ ایں امراض خبیثہ می کند
یاس و حزن اور خوف ام الخباءث اور قاطع حیات ہیں ان امراض خبیثہ کا ازالہ (صرف) توحید سے ہو سکتا ہے

چون کلیمی سوی فرعونی رود
قلب او از لا تخف محکم شود
مطلب: جب اللہ کا کوئی پیغامبر حضرت موسیٰ کی طرح فرعون جیسے جابر کے پاس پیغام حق لے کر جاتا ہے تو اس کا دل لاتخف سے مضبوط ہو جاتا ہے ۔
____________________________________

٢- لا یخلف المیعاد ( وعدہ خلافی نہیں کرتا)


اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ (سورہ ال عمران  ٩:٣)
بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کیا کرتا
Indeed, Allah does not fail in His promise

(Bang-e-Dra-170) Gharcha Tu Zindani-e-Asbab Hai
گرچہ تو زنداني اسباب ہے
قلب کو ليکن ذرا آزاد رکھ
عقل کو تنقيد سے فرصت نہيں
عشق پر اعمال کي بنياد رکھ
اے مسلماں! ہر گھڑي پيش نظر
آيہ 'لا يخلف الميعاد' رکھ
يہ 'لسان العصر' کا پيغام ہے
''ان وعد اللہ حق'' ياد رکھ
معا نی:  قرآنی آیت ۔ لا یخلف المیعاد: اللہ تعالیٰ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا، یعنی اچھے عملوں پر بخشش کا وعدہ ۔
مطلب: اے مسلمان! تیرے روبرو ہر گھڑی قرآن کی یہ آیت ہونی چاہیے کہ اللہ کے وعدے جھوٹے نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ سچے ہوتے ہیں ۔

اس نظم کے تیسرے شعر میں ’’سورۃ العمران، آیت:نو‘‘ جبکہ آخری شعر میں ’’سورۃ لقمان، آیت: تینتیس‘‘ کا کچھ حصہ لیا گیا ہے-

 

(Bang-e-Dra-162) Jawab-e-Khizr (خضر راہ - جواب خضر) Khizr’s Reply 
مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار
بر زماں پیشِ نظر لا یخلف المیعاد دار
معانی: تو اگر مسلمان ہے تو اپنے دل میں عظمت اسلام اور ملت اسلامیہ کی ترقی و سربلندی کی آرزو زندہ رکھ اور اس قرآنی آیت کو ہر وقت اپنے سامنے رکھ کہ خدا تعالیٰ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔
You are a Muslim; fill your heart with desire; At every time keep before your eyes the words 'My promise is never broken'

____________________________________

٣-حبل اللہ (اللہ کی رسی)

قرآن مجید میں اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے : 
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا (آل عمران:۱۰۳) 
ترجمہ: ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو سب مل کر‘‘

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلَا وَاِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ ‘ اَحَدُھُمَا کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ …
ترجمہ: ’’ آ گاہ رہو! میں تمہارے مابین دو خزانے چھوڑے جا رہا ہوں‘ اُن میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے‘ وہی حبل ُ اللہ ہے…‘‘

اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: 
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ حَبْلُ اللّٰہِ وَالنُّوْرُالْمُبِیْنُ 
ترجمہ: ’’یقینا یہ قرآن حبل ُاللہ اور نورِ مبین ہے‘‘.

راوی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مطابق ایک حدیث کے الفاظ ہیں: 
اَ لْقُرْآنُ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ 
ترجمہ: ’’یہ قرآن اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے‘‘.

-اقبال رموزِ بے خودی کی فارسی نظم  "درمعنی این کہ درزمانہ انحطاط تقلید از اجتہاد اولیٰ تر است" (زمانہ انحطاط میں تقلید اجتہاد سے بہتر ہے)  میں   کہتے ہیں  :
ماہمہ خاک و دل آگاہ اوست!
اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست!
چوں گہر در رشتہ او سفتہ شو
ورنہ مانند غبار آشتفہ شو!
معانی: ’’وحدتِ آئین ہی مسلمان کی زندگی کا اصل راز ہے اور ملتِ اسلامی کے جسدِ ظاہری میں روح ِ باطنی کی حیثیت صرف قرآن کو حاصل ہے. ہم تو سرتاپا خاک ہی خاک ہیں‘ ہمارا قلبِ زندہ اور ہماری روحِ تابندہ تو اصل میں قرآن ہی ہے. لہذا اے مسلمان! تو قرآن کو مضبوطی سے تھام لے کہ ’حبل اللہ‘ یہی ہے‘‘.


____________________________________

٤-قُلِ الْعَفْوَ

”یَسْئَلُونَکَ ما ذا یُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ“۔ (البقرہ:219)
ترجمہ:”تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں‘ کہہ دے  (جائز ضرورتوں سے )جو کچھ بچے وہ (خدا کی راہ میں) خرچ کردیا جائے“

 

اقبال اپنی نظم  اشتراکیت (ضربِ کلیم) میں   کہتے ہیں  :
جو حرف" قُلِ الْعَفْوَ" میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
معانی: قل العفو: قرآن مجید کی ایک آیت کی طرف اشارہ ہے جس کے معنی ہے کہ اے نبی ﷺ یہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ۔ تم کہہ دو قل العفو یعنی تمہاری جائز ضرورتوں سے جو کچھ بھی زیادہ ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو ۔ پوشیدہ: چھپی ہوئی ۔ نمودار: ظاہر ۔
مطلب: علامہ نے اس آخری شعر میں مسلمان کو قرآن پڑھ کر نظام اقتصادیات کو سمجھنے اور سمجھانے کا جو طریقہ استعمال کیا ہے اس کے لیے قل العفو (اپنی جائز ضرورت سے جو کچھ زیادہ ہے خرچ کردو) کی طرف اشارہ کیا ہے اور امید رکھی ہے کہ شاید اس دور میں غلط نظریات سے تنگ آ کر لوگ صحیح فکر کی تلاش میں قرآن اور اسلام کی طرف رجوع کریں اوراس حقیقت کو ظاہر کرتے ہوئے جو قل العفو والی آیت میں موجود ہے دنیا کے سامنے اسلامی نظام اور اقتصادیات کا وہ تصور پیش کریں جس سے تقریباً بارہ تیرہ سو سال انسانی فلاح کا کام کیا ہے ۔ اور آج ہم انگریزی اور مغربی تہذیب و تمدن اور افکار سیاسیات و اقتصادیات کی بنا پر اسے بھول چکے ہیں اور اشتراکیت جیسی مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ اگر مسلمان قرآن پاک پر عمل کرنا شروع کریں تو امید ہے کہ یہ حقیقت دنیا پرآشکارا ہوجائے گی۔ اور محنت اور سرمایہ کے درمیان جو کشاکش جاری ہے اس کے ختم ہونے کی صورت پیدا ہوجائے گی یا کم از کم اسلامی معاشرہ اس مصیبت سے محفوظ رہے گا.
____________________________________

٥-لا تذر

وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا [ نوح: 26]

ترجمہ:اور (پھر) نوحؑ نے (یہ) دعا کی کہ میرے پروردگار اگر کسی کافر کو روئے زمین پر بسا نہ رہنے دے.


اقبال نے اس آیت  کی تلمیح  کو اپنے کلام میں ایک نظم طارق کی دعا ( بال جبریل- اندلس کے ميدان جنگ ميں) میں استعمال کیا ہے -

دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے

وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لا تذر میں

____________________________________

 ٦- وَرَفَعْنَا لَک ذِکْرَک

اقبال نے ’’وَرَفَعْنَا لَک ذِکْرَک‘‘ کی تلمیح سورہ الم نشرح کی آیت سے اخذ کی ہے اور پوری آیت کو مصرع بنادیاہے۔
 فرمایا گیا:
ترجمہ:’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نام کو یہ بلند مقام عطا فرمایا ہے کہ دُنیا کے ہر خطے میں پانچ وقت آپ کا مبارک نام اللہ تعالیٰ کے ساتھ مسجدوں سے بلند ہوتا ہے۔ نیز آپ کے مبارک تذکرے دُنیا بھر میں انتہائی عقیدت کے ساتھ ہوتے ہیں، اور اُنہیں ایک عظیم عبادت قرار دیا جاتا ہے۔ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَ بَارَکَ وَسَلَّمَ۔ اقبال نے اس آیت کو اپنے کلام میں صرف ایک بار ’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’جواب شکوہ‘‘ کے درج ذیل بند میں استعمال کیا ہے:

دشت میں، دامن ِ کوہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک دیکھے

معانی: ابد تک: رہتی دنیا تک ۔ رفعتِ شان: عظمت اوربڑائی کی بلندی ۔ رفعنا لک ذکرک: قرآن کی ایک آیت کا ٹکرا ہم نے تیری خوشی کی خاطر تیرا نام بلند کر دیا ۔
مطلب: دنیا بھر کی قو میں قیامت تک یہ منظر دیکھتی رہیں گی کہ رب ذوالجلال نے حضور اکرم کا تذکرہ اور مرتبہ بلند رکھنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ کس انداز میں پورا کیا جاتا رہا ہے ۔ مراد یہ کہ آنحضرت کے نام کے ساتھ توحید اور رسالت بھی ہمیشہ قائم رہے گی اور یہ وعدہ ضرور پورا ہوتا رہے گا ۔

____________________________________


٧- وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہاً آخَرَ

 اقبال نے ’’وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہاً آخَرَ‘‘ کے فقروں کو جو مختلف آیات کا جز وہے تلمیح کے طور پر اپنے کلام میں صرف ایک بار ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’’لاہور وکراچی‘‘  میں استعمال کی:

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غُیور

موت کیا شے ہے، فقط عالَمِ معنی کا سفر

اُن شہیدوں کی دِیَت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خُوں جن کا حرم سے بڑھ کر

آہ! اے مردِ مسلماں تجھے کیا یاد نہیں

حرفِ ’لا تَدعُ مَعَ اللہِ الٰھاً آخر


فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّـٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَكُـوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ (سورۃ الشعراء 213)

ترجمہ: سو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار ورنہ تو بھی عذاب میں مبتلا ہو جائے گا۔

____________________________________

٨-حتّٰی تنفقوا

اقبال   کہتے ہیں  :

دل ز ’’حتّٰی تنفقوا‘‘ محکم کند

زر فزاید اُلفت زر کم کند

مطلب: یہ (زکواۃ) حتیٰ تنفقو کے ارشاد ربانی سے دل کو مضبوط کرتی ہے ۔ دولت کو برکت عطا کرتی اور اس (دولت) میں محبت میں کمی کا باعث بنتی ہے ۔


 پہلا مصرع پارہ نمبر چار کی پہلی قرآنی آیت کا حصہ ہے- 

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّـٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَىْءٍ فَاِنَّ اللّـٰهَ بِهٖ عَلِـيْمٌ (سورۃ آل عمران 92)

ترجمہ: ہرگز نیکی میں کمال حاصل نہ کر سکو گے یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز سے کچھ خرچ کرو، اور جو چیز تم خرچ کرو گے بے شک اللہ اسے جاننے والا ہے۔

____________________________________

٩-لا تحزنو

اقبال   کہتے ہیں  :

خرقۂ ’’لا تحزنو‘‘ اندر برش

’’انتم الاعلون‘‘ تاجی بر سرش


اس شعر میں سورۃ العمران (آیت: ایک سو انتالیس) کا کچھ حصہ شامل ہے -ارشادِ ربانی ہے: 

’’وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘

ترجمہ: اور سست نہ ہو اور غم نہ کھاؤ اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔


____________________________________

١٠-لیس للانسان الا ماسعی

اقبال   کہتے ہیں  :

کم حق ہے ’’لیس للانسان الا ماسعی‘‘

کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار


شعر کے پہلے مصرع میں ’’سورۃ نجم،آیت:انتالیس‘‘ہے - 

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (39)

ترجمہ: اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو کرتا ہے۔

 

اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اللہ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)۔ (عرفان القرآن)

____________________________________ 

١١- یَنسِلُوْنَ

قرآن مجید میں سورہ یونس، آیت اکیاون میں ’’وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْن‘‘ کاذکر ہے۔سورہ الانبیاء، آیت چھیانوے میں ہے ’’حَتّٰی إِذَا فُتِحَتْ یَأ ْجُوْجُ وَمَا ْجُوْجُ‘‘ کے الفاظ ہیں جبکہ اسی آیت کا آخری فقرہ ’’یَنسِلُوْنَ‘‘ ہے۔

اَثُـمَّ اِذَا مَا وَقَـعَ اٰمَنْتُـمْ بِهٖ ۚ آلْاٰنَ وَقَدْ كُنْتُـمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ (سورہ یونس 51) ↖

کیا پھر جب وہ آ چکے گا تب اس پر ایمان لاؤ گے، اب مانتے ہو اور تم اس کی جلدی کرتے تھے۔

 حَتّــٰٓى اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُـمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ (سورہ الانبیاء 96)

یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے چلے آئیں گے۔


 دیکھئے اقبال نے ان آیات کی تلمیحات کو کس طرح استعمال کیا ہے:

محنت وسرمایہ دنیا میں صف آرا ہوگئے

دیکھئے ہوتا کس کس طرح تمناؤں کا خون

حکمت وتدبیرسے یہ فتنۂ پرآشوب خیز

ٹل نہیں سکتا وَقَدْ کُنتُم بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْن

کھل گئےیاجوج وماجوج کے لشکر تمام

چشم ِ عالم دیکھ لے تفسیرحرفِ یَنْسِلُوْنَ

____________________________________

١٢-علم الاسماء

اقبال   کہتے ہیں  :

مدعائے علم الاسماء ستے

سرِّ سبحان الّذی اسرا ستے


پہلے مصرع کی تلمیح ’’سورۃ البقرہ،آیت: اکتیس، ’’وَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَائَ کُلَّہَا‘‘ - اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔ (عرفان القرآن) ، 

جبکہ دوسرے مصرع کی تلمیح ’’سورۃ بنی اسرائیل،آیت:ایک ہے - 

’’سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَیٰ بِعَبْدِہِ‘ ۔

ترجمہ: وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔(عرفان القرآن)

____________________________________

١٣-ختمِ نبوت

اقبال   کہتے ہیں  :

اے ترا حق خاتمِ اقوام کرد

بر تو ہر آغاز را انجام کرد


پہلے مصرع میں اقبالؒ نے آقائے دو جہاں (ﷺ) کے وصف ِ ختمِ نبوت کا ذکر کیا ہے جو ’’سورۃ الاحزاب،آیت: چالیس کی تلمیح ہے:

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّـٰهِ وَخَاتَـمَ النَّبِيِّيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمًا (40)

 ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ? نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔ (عرفان القرآن)

دوسرا مصرع ’’سورۃ المائدہ،آیت:تین کی تلمیح ہے۔ 

الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی 

ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی۔ (عرفان القرآن)۔

____________________________________

١٤- شَرَاباً طَہُوْراً

قرآن مجید میں ’’شَرَاباً طَہُوْراً‘‘ کاذکر ہوا ہے۔ اس تلمیح سے اقبال کے کلام میں صرف ایک ہی شعر ’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’عشرت امروز‘‘ میں ہے:

نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش وسرور

نہ کھینچ نقشہ ٔ کیفیت شراب طہور


اقبال نے یہ تلمیح سورہ الدہر کی آیت اکیس کے اس فقرے سے اخذ کی ہے، فرمایا گیا:

ترجمہ:’’اور ان کا رب ان کو پاکیزہ شراب پلائے گا‘‘ 

____________________________________

١٥- سَلْسَبِیْلاً

قرآن مجید میں ’’سَلْسَبِیْلاً‘‘ کاذکر ہوا ہے۔ یہ تلمیح اقبال کے کلام میں صرف ’’بانگ درا‘‘ کیاشعار میں آئی ہے۔ پہلا شعر ’’عشرت امروز‘‘ کا ہے اور دوسرا ’’صحرانووردی‘‘ کا ہے:

مجھے فریفتۂ ساقی جمیل نہ کر

بیانِ حور نہ، ذکر سلسبیل نہ کر

اقبال نے سلسبیل کی تلمیح سورہ الدہر کی آیت سترہ اوراٹھارہ سے اخذ کی ہے، فرمایا گیا 

ترجمہ: ’’ان (جنتیوں) کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔یہ جنت کا ایک چشمہ ہوگا جسے سلسبیل کہاجاتا ہے.‘‘

 اقبال نے یہاں شعر کے پہلے مصرع میں ’’ساقی جمیل‘‘ کی ترکیب سورہ الدہر کی آیت انیس سے اخذ کی ہے، فرمایا گیا 

ترجمہ: ’’ان (جنتیوں) کی خدمت کیلئے ایسے لڑکے دوڑتے پھررہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھردیئے گئے ہیں‘‘۔

____________________________________

١٦- رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ

اقبال   کہتے ہیں  :
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

اس شعر میں ’’سورۃ الفتح ،آیت: 29‘‘ کی طرف اشارہ ہے:
’’وَ الَّذِيْنَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ‘‘

ترجمہ: اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں،

____________________________________

١٧- نَخْلٍ خَاوِيَة

اقبال   کہتے ہیں  :
 صر صرے با ہوائے بادیہ
’’اَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَة‘‘ 
جاوید نامہ


شعر کا دوسرا مصرعہ سورۃ الحاقہ کی ’’آیت: 7‘‘ سے ماخوذ ہے-
سَخَّرَهَا عَلَيْـهِـمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَّّثَمَانِيَةَ اَيَّامٍۙ حُسُوْمًا فَتَـرَى الْقَوْمَ فِيْـهَا صَرْعٰى كَاَنَّـهُـمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ (7)
ترجمہ: "وہ ان پر سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار چلتی رہی (اگر تو موجود ہوتا)، اس قوم کو اس طرح گرا ہوا دیکھتا کہ گویا کہ گھری ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں"

____________________________________

١٨- الْقِصَاصِ 

اقبال   کہتے ہیں  :
گفت قاضی فی القصاص آمد حیوٰۃ
زندگی گیرد بایں قانون ثبات 
مطلب: قاضی نے کہا یہ معاملہ تو قصاص کا ہے اور ارشاد قرآنی کے مطابق قصاص ہی زندگی ہے ۔ اسی قانون کے ذریعے سے زندگی استوار ہوتی ہے ۔

شعر میں ’’سورۃ البقرہ  کی آیت:179‘‘ کا کچھ حصہ بیان ہوا ہے:

’’وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ‘‘

ترجمہ: اور اے عقل مندو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم (خونریزی سے) بچو۔

____________________________________

١٩- يَسْفِكُ الدِّمَا

اقبال   کہتے ہیں  : 
دیدم چوں جنگ پردہ ناموس او درید
جز ’’يَسْفِكُ الدِّمَا‘‘ و ’’خَصِيمٌ مُّبِيں‘‘ نبود 

اس شعر میں ’’سورۃ النحل ،آیت :3‘‘ اور ’’البقرہ آیت :30‘‘  کا کچھ حصہ شامل ہے-

____________________________________

٢٠- آفل 

اقبال   کہتے ہیں  :
تارکِ آفل براہیمِ خلیل
انبیاء را نقشِ پائے او دلیل

شعر کے پہلے حصہ میں ’’سورۃ الانعام، آیت: 76‘‘، ’’قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ‘‘کی تلمیح استعمال ہوئی ہے-

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَاَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هٰذَا رَبِّىْ ۖ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ (76) 
ترجمہ: پھر جب رات نے اس پر اندھیرا کیا تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

____________________________________

٢١- اقراء 

اقبال   کہتے ہیں  :
حرفِ اقراء حق بما تعلیم کرد
رزقِ خویش از دستِ ما تقسیم کرد

شعر کے پہلے مصرعہ میں قرآنی آیت ’’اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ‘‘( العلق:1) کی تلمیح استعمال ہوئی  ہے-
____________________________________

٢٢- دَخَلُوا قَرْيَةً

اقبال  اپنی فارسی نظم  پیغام افغانی با ملت روسیہ (جاوید نامہ) میں کہتے ہیں  :
رایتِ حق از ملوک آمد نگوں
قریہ ہا از دخل شاں خوار و زبوں
مطلب: پرچم حق بادشاہوں نے سرنگوں کر دیا ۔ یوں ان کی مداخلت سے بستیاں تباہ و برباد ہو گئیں ۔ بے شک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل و خوار کر دیتے ہیں۔

مذکورہ شعر میں  ’’سورۃ النمل:34‘‘ کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ رب العزّت نے ارشاد فرمایا:
قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَجَعَلُوٓا اَعِزَّةَ اَهْلِهَآ اَذِلَّـةً ۚ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ (34)
ترجمہ: کہنے لگی بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں اسے خراب کر دیتے ہیں اور وہاں کے سرداروں کو بے عزت کرتے ہیں، اور ایسا ہی کریں گے۔

____________________________________

٢٣- وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ

اقبال   کہتے ہیں  :
زندگی مضمون تسخیر است و بس
آرزو افسون تسخیر است و بس

اس شعر میں اقبالؒ نے انسانی زندگی میں تسخیرِ فطرت پر بحث کی ہے اور یہ قرآن ’’سورۃ الجاثیہ، آیت:13‘‘ کا مفہومی ترجمہ ہے جس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ جَـمِيْعًا مِّنْهُ ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ (13) ↖
ترجمہ: اور اس نے آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کو اپنے فضل سے تمہارے کام پر لگا دیا ہے، بے شک اس میں فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

(تسخیر ِفطر ت کے حوالے سے قرآن مجید میں متعدد آیات شامل ہیں)

____________________________________

٢٤- خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا

اقبال   کہتے ہیں  :
نہیں ہے چیز نکمّی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قُدرت کے کارخانے میں 

یہ شعر ’’سورۃ المؤمنون،آیت:115‘‘ کی بہترین تشریح ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے ؟

آیت ملاحظہ ہو:
اَفَحَسِبْتُـمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ (115) ↖
ترجمہ: سو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں نکما پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آؤ گے۔

____________________________________

٢٥- تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ

اقبال   کہتے ہیں  :
ہزار خوف ہو، لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق 

قول و فعل میں یکسانیت سے متعلق سورۃ الصف میں  ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (2) كَبُـرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّـٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (3)
ترجمہ:  اے ایمان والو! کیو ں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔اللہ کے نزدیک بڑی نا پسند بات ہے جو کہو اس کو کرو نہیں۔


____________________________________

٢٦- آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَ فِي أَنفُسِهِمْ

اقبال   کہتے ہیں  :
ہے انفس و آفاق میں پیدا تیرے آیات!
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پایندہ تیری ذات!

یہ شعر ’’سورۃ فصلت،آیت:53‘‘ کی تمثیل ہے جس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:

سَنُرِيْهِـمْ اٰيَاتِنَا فِى الْاٰفَاقِ وَفِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَتّـٰى يَتَبَيَّنَ لَـهُـمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۗ اَوَلَمْ يَكْـفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٝ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ (53)
ترجمہ: عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا ان کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

____________________________________

٢٧-کن فیکوں

اقبال   کہتے ہیں  :
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
مطلب: خدائے عزوجل نے ایک لفظ کن کے ذریعے کائنات کو تخلیق کیا ۔ آج تک کانوں میں یہی لفظ بار بار گونج رہا ہے ۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کائنات ابھی تک ناتمام ہے اور پایہ تکمیل کو نہیں پہنچی ۔

 اقبال اپنی نظم  شمع میں   کہتے ہیں  :

صبحِ ازل جو حُسن ہوا دلستانِ عشق
آوازِ کن ہوئی تپش آموزِ جانِ عشق
معانی: دلستان: دل لینے، چھیننے والا ۔ صبحِ ازل: کائنات کے وجود میں آنے سے بھی پہلے کی صبح ۔ آوازِ کن: ہو جا کی آواز قرآنی آیت ہے جب خدا کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو فرماتا ہے ہو جا اور وہ پیدا ہو جاتی ہے ۔
مطلب: جب خالق کون و مکان نے کن کی صدا کے ساتھ کائنات کی تخلیق کی تو حسن عملاً عشق کا گرویدہ ہوا اور اسی کیفیت نے عاشق کے دل میں ایک تڑپ اور اضطراب پیدا کر دیا ۔

یہ شعر  قران کریم کی مندرجہ زیل آیات  کی تمثیل ہے جن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:

بَدِيْعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَـهٝ كُنْ فَيَكُـوْنُ (سورۃ البقرۃ 117) ↖
ترجمہ: آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اور جب کوئی چیز کرنا چاہتا ہے تو صرف یہی کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، سو وہ ہو جاتی ہے۔
اِنَّمَآ اَمْرُهٝٓ اِذَآ اَرَادَ شَيْئًا اَنْ يَّقُوْلَ لَـهٝ كُنْ فَيَكُـوْنُ (سورۃ یس 82) ↖
ترجمہ: اس کی تو یہ شان ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اتنا ہی فرما دیتا ہے کہ ہو جا، سو وہ ہو جاتی ہے۔
يَسْاَلُـهٝ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِىْ شَاْنٍ (سورۃ الرحمٰن 29) ↖
ترجمہ: اس سے مانگتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، ہر روز وہ ایک کام میں ہے۔

____________________________________

٢٨- فاصحبتم 

اقبال  اپنی فارسی نظم  حرفے چند با امت عربیہ (امت عربیہ سے چند باتیں )  میں کہتے ہیں  :
علم و حکمت ریزہ از خوان کیست

آیہ فاصحبتم اندر شان کیست

مطلب: علم و حکمت کس کے دسترخوان کا ریزہ ہے۔ فاصحبتم کی آیت (تم ان کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے) کس کی شان میں نازل ہوئی۔


 یہ شعر  قران کریم کی مندرجہ زیل آیت  کی تمثیل ہے جن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:

 وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّـٰهِ جَـمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۚ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُـمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُـمْ بِنِعْمَتِهٓ ٖ اِخْوَانًاۚ وَكُنْتُـمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْـهَا ۗ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّـٰهُ لَكُمْ اٰيَاتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ (سورۃ آل عمران 103)

ترجمہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔

____________________________________

٢٩-  لن ترانی

اقبال   کہتے ہیں  :
کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی
گیا دور حدیث لن ترانی
 ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی وہی آخر زمانی
معانی: اسرار: راز ۔ نہانی: خفیہ ۔ لن ترانی: تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ۔
مطلب: مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جب دنیا فسق و فجور سے بھر جائے گی تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ایک ایسا مہدی بھیجے گا جو باطل کی قوتوں کو مٹا کر رکھ دے گا ۔ اسلام کا ڈنکا نئے سرے سے بجے گا ۔ اس آنے والے کو وہ آخری زمانے کا مجدد سمجھتے ہیں ۔ اس کو اقبال نے مہدی اور آخر زمانی کے لقبوں سے یاد کیا ہے ۔ اس رباعی کے مطابق اب وہ دور آ گیا ہے جب کائنات کے تمام راز ہائے سربستہ کھلے چلے جا رہے ہیں ۔ اب وہ زمانہ بھی نہیں رہا کہ حضرت موسیٰ کی طرح جواب ملے لن ترانی یعنی تم ہمارا جلوہ نہیں دیکھ سکتے ۔ چنانچہ بقول اقبال اب تک تو صورت حال اس مرحلے تک آ پہنچی ہے کہ جو شخص بھی اول اول خودی کی معرفت حاصل کر سکا وہی مہدی آخر الزمان ٹھہرے گا ۔

وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٝ رَبُّهٝ قَالَ رَبِّ اَرِنِـىٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ ۚ قَالَ لَنْ تَـرَانِىْ وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٝ فَسَوْفَ تَـرَانِىْ ۚ فَلَمَّا تَجَلّـٰى رَبُّهٝ لِلْجَبَلِ جَعَلَـهٝ دَكًّا وَّخَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا ۚ فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ (سورۃ الاعراف 143) ↖
ترجمہ: اور جب موسٰی ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے رب مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں! فرمایا کہ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا لیکن تو پہاڑ کی طرف دیکھتا رہ اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو تو مجھے دیکھ سکے گا، پھر جب اس کے رب نے پہاڑ کی طرف تجلی کی تو اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کی کہ تیری ذات پاک ہے میں تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا یقین لانے والا ہوں۔

____________________________________

٣٠-  اولی الامر منکم

اقبال   کہتے ہیں  :
یا اولی الامرے کہ منکم شان اوست
آیہ حق حجت و برہان اوست
مطلب: یا تو وہ اولی الامر منکم ، جس کی شان ہے اور خدا کی یعنی قرآن کریم کی آیت اس سلسلے میں دلیل ہے ۔ یعنی صاحب اقتدار اہل ایمان ہو، رسول اللہ کا اطاعت گزار اور حضور کے فرمودہ اصولوں کے مطابق حکمرانی کرتا ہو، اور جو حکمران اسلامی نظریات سے بیگانہ ہو اسے حاکم نہیں ماننا چاہیے نہ خراج دینا چاہیے ۔

 

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَاِنْ تَنَازَعْتُـمْ فِىْ شَىْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّـٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُـمْ تُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيْـرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا (سورۃ النساء 59)
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں، پھر اگر آپس میں کسی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لاؤ اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو، یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے۔

____________________________________

٣١-  اُمَّةً وَّّسَطًا

اقبال   کہتے ہیں  :
می ندانی آیہ ام الکتاب
امت عادل ترا آمد خطاب
مطلب: اے ملت اسلامیہ! کیا قرآن مجید کی وہ آیت تجھے معلوم نہیں جس میں تجھے امت عادل کا خطاب ملا ۔
آب و تاب چہرہ ایام تو
در جہان شاہد علی الاقوام تو
مطلب: زمانے کے چہرے کی رونق اور تازگی تیرے ہی دم سے ہے تو اس دنیا میں تمام قوموں کے لیے گواہی دینے والی ہے ۔ اس میں اشارہ قرآن مجید کی اس آیت کی طرف ہے اور ہم نے تمہیں نیک ترین اور عادل ترین امت ہونے کا درجہ عطا فرمایا تاکہ تم تمام انسانوں کے لیے گواہی دینے والے ہو اور تمہارے لیے رسول اللہ گواہی دینے والے ہیں (البقرہ) ۔

 

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اُمَّةً وَّّسَطًا لِّتَكُـوْنُـوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَـةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَيْهِ ۚ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْـرَةً اِلَّا عَلَى الَّـذِيْنَ هَدَى اللّـٰهُ ۗ وَمَا كَانَ اللّـٰهُ لِيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْـمٌ (سورۃ البقرۃ 143) ↖

ترجمہ : اور اسی طرح ہم نے تمہیں برگزیدہ امت بنایا تاکہ تم اور لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو، اور ہم نے وہ قبلہ نہیں بنایا تھا جس پر آپ پہلے تھے مگر اس لیے کہ ہم معلوم (الگ) کریں اس کو جو رسول کی پیروی کرتا ہے اس سے جو الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بے شک یہ بات بھاری ہے سوائے ان کے جنہیں اللہ نے ہدایت دی، اور اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا، بے شک اللہ لوگوں پر بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

____________________________________

٣٢-  لا تفسدو

اقبال   کہتے ہیں  :
ارض حق را ارض خود دانی بگو
چیست شرح آیہ لا تفسدو
مطلب: تو خدا کی زمین کو اپنی زمین سمجھتا ہے تو پھر ذرا یہ تو بتا کہ آیہ لا تفسدو کی تفسیر (شرح) کیا ہے ۔


 وَاِذَا قِيْلَ لَـهُـمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ (سورۃ البقرۃ 11) 

ترجمہ : اور جب اُنہیں کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
____________________________________

٣٣-   آیہ تسخیر

اقبال   کہتے ہیں  :
آیہ تسخیر اندر شان کیست
ایں سپہر نیلگون حیران کیست
مطلب: قرآن مجید میں آیہ تسخیر کس کی شان میں ہے ۔ یہ نیلا آسمان کس کی عظمت پر حیران ہے گویا اللہ تعالیٰ نے یہ عظمت انسان کو بخشی ہے جس کو دیکھ کر آسمان حیرانی کا شکار ہے ۔

وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّـهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرَاتٌ بِاَمْرِهٖ ۗ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ (سورہ نحل12) ↖
ترجمہ :اور اس نے تمہارے لیے مسخر کیا رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو اور ستارے بھی اس کے حکم کے تابع ہیں اور اس کی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔

____________________________________

٣٤- صاحبِ مازاغ

اقبال   کہتے ہیں  :
فروغِ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحبِ مازاغ
معانی: فروغ: ترقی، سربلندی ۔ خیرہ کرنا: آنکھوں کو چندھیانا ۔ صاحبِ مازاغ: حضرت محمد ﷺ مازاغ سورۃ النجم کی ایک آیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں شب معراج کا اشارۃً ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے ما زاغ البصر وما طغی کہ نبی ﷺ کی نظر نے جو کچھ دیکھا وہ بالکل درست دیکھا ۔ ان کی نگاہ نہ ادھر سے ادھر ہوئی اور نہ حد سے بڑھی ۔
مطلب: اہل مغرب نے جو بھی اور جیسی بھی ترقی کی ہے علامہ اقبال اسے فطرت میں مداخلت سمجھتے ہیں ۔ ا س ترقی نے چونکہ انسان کو انسان نہیں رہنے دیا اس لیے علامہ مسلمان کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری نظریں اہل مغرب کی ترقی اور سربلندی دیکھ کر چندھیا رہی ہیں حالانکہ یہ ترقی ترقی نہیں انسانی زوال کا دوسرا نام ہے ۔ اس لیے میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہستی جس کی نظر نے شب معراج سب کچھ دیکھا اور سچ دیکھا یعنی حضرت محمد ﷺ کی ہستی تیری نگہبان ہو اور تجھے صحیح نظر سے مغربیوں کی ترقی دیکھنے کی توفیق نصیب کرے ۔

 

اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى (16) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى (17)  لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْـرٰى (18) 
ترجمہ : جب کہ اس سدرۃ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا (یعنی نور)۔ نہ تو نظر بہکی نہ حد سے بڑھی۔ بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔
____________________________________

٣٥-  اِنَّ المَلُوک


 اقبال اپنی نظم' خضر راہ ' میں   کہتے ہیں  :
آ بتاؤں تجھ کو رمزِ آیہَ اِنَّ المَلُوک
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری
معانی: رمز: اشارہ، بھید، حقیقت ۔ ان الملوک: سورہ نمل آیت 34 جب بادشاہ کسی گاؤں قصبے میں فتح کے بعد داخل میں ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں ۔ اقوامِ غالب: غلبے والی، حکمران قو میں ۔ جادوگری: جادو، دھوکے فریب کا انداز ۔
مطلب: شاعر نے چونکہ خضر سے استفسارات میں سلطنت کے بارے میں بھی سوال کیا تھا کہ اس کی نوعیت کیا ہے چنانچہ اس کے جواب میں خضر نے کہا کہ اے شاعر! آ میں تجھے اس حوالے سے قرآن پا ک کی ایک سورہ کی معنویت بتاتا ہوں جس میں کہا گیا ہے کہ سلطنت صرف اور صرف طاقتور لوگوں کی طرف سے کمزور لوگوں کا استحصال کرنے اور ان پر حکمرانی کرنے کا نام ہے ۔ یہ عمل تو ایک ایسے طلسم کی مانند ہے کہ اگر کوئی کمزور قوم یا فرد اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور استحصالی قوتوں کی خلاف نبرد آزما ہوتا ہے تو طاقتور حکمران اپنے سحر انگیز حربوں سے ان کی قوت مدافعت کو ختم کر دیتا ہے ۔ اس طرح اپنا جابرانہ نظام مسلط کیے رکھتے ہیں ۔ اے شاعر! جان لے کہ ایسے حکمران جب غلام قوموں پر اپنا طلسم بکھیرتے ہیں تو وہ طوق غلامی پر بھی فخر کرنے لگ جاتے ہیں ۔


قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَجَعَلُوٓا اَعِزَّةَ اَهْلِهَآ اَذِلَّـةً ۚ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ (سورۃ النمل 34)

ترجمہ : کہنے لگی بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں اسے خراب کر دیتے ہیں اور وہاں کے سرداروں کو بے عزت کرتے ہیں، اور ایسا ہی کریں گے۔

____________________________________

٣٦- كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ .


 اقبال اپنی نظم' مسجد قرطبہ ' میں   کہتے ہیں  :
 اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو، منزلِ آخر فنا
مطلب: ان تمام اشعار کے پس منظر میں اقبال یہ کہتے ہیں کہ اس جہان کا اول و آخر غرض ہر شے کا مقصد فنا کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ یہ شعر عملاً قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا مزا ضرور چکھنا ہے یعنی کہ موت ہر شے کا مقدر ہے ۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ آغاز ہو یا انجام ظاہر ہو یا باطن! کوئی تخلیق نئی ہو یا پرانی! بالاخر اس کی منزل فنا کے سوا اور کچھ نہیں ۔

 ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ... ١٨٥﴾...آل عمران

ترجمہ : "ہر جاندار موت کا مزہ چکھے گا۔"

____________________________________

٣٧- وفدینہ بذبح عظیم

وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْـحٍ عَظِـيْمٍ (سورۃ الصافات 107) ↖
ترجمہ : اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیا۔

 اقبال اپنی نظم' در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہَ کربلا (بیان حریتِ اسلامیہ اور سرِ حادثہَ کربلا) ' میں   کہتے ہیں  :
اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
مطلب: ان کے والد ماجد حضرت علی علیہ السلام بسم اللہ کی ب تھے اور فرزند یعنی امام حسین قرآن مجید کی آیت ، وفدینہ بذبح عظیم کا مطلب و مفہوم بن گئے، ۔

____________________________________

٣٨-  خدا نور ہے 

اقبال   کہتے ہیں  :

رباعی (30)
 یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے
کہ جاں مرتی نہیں مرگِ بدن سے

چمک سورج میں کیا باقی رہے گی
اگر بیزار ہو اپنی کرن سے
مطلب: اقبال کہتے ہیں کہ نکتہ میں نے ابوالحسن سے سیکھا ہے کہ انسان بے شک جسمانی سطح پر وفات پا جاتا ہے لیکن اس کی روح زندہ و برقرار رہتی ہے ۔ بالفاظ دگر اگر کرنیں سورج سے رابطہ ختم کر لیں تو سورج میں وہ تابندگی کیسے برقرار رہے گی جو اس کی پہچان ہے ۔ مراد یہ ہے کہ روح کے بغیر انسان محض ایک تودہ خاک ہے ۔ میرے نزدیک ابوالحسن سے یہاں مراد حضرت علی المرتضیٰ ہیں چونکہ وہ امام حسن کے والد محترم بھی تھے اس لیے ان کی کنیت ابوالحسن تھی ۔ رباعی میں جو نکتہ بیان کیا گیا ہے اس کے اشارے قرآن پاک کی ایک آیت کے حوالے سے نہج البلاغہ کے بعض اشعار میں بھی ملتے ہیں کہ خدا نور ہے اور روح اس نور کی کرن یعنی پرتو ہے ۔
____________________________________

٣٩-  اتی الرحمٰن عبدا

اقبال   کہتے ہیں  :
اہل حق را رمز توحید ازبر است
در اتی الرحمن عبدا مضمر است
مطلب: اہل حق توحید کی رمز کے ہر پہلو سے آگاہ ہیں ۔ یہ رمز سورہ مریم کی اس آیت نمبر 93 سے واضح ہے جس کے آخری اتی الرحمٰن عبدا آتا ہے جس کا ترجمہ یہاں درج کیا جاتا ہے اشارہ ہے ترجمہ: آسمان اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اسی لیے ہے کہ اس کے آگے بندگی کا سر جھکائے حاضر ہو گا۔

اِنْ كُلُّ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِى الرَّحْـمٰنِ عَبْدًا (سورۃ مریم 19:93)
ترجمہ : جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ان میں سے ایسا کوئی نہیں جو رحمان کا بندہ بن کر نہ آئے۔
____________________________________

٤٠-   شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے

اقبال نے اپنی نظم سیرِ فلک  میں قرآن پاک کی سورہ توبہ کی34 ویں آیت کی منظوم تفسیر پیش کی ہے ۔ 

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنَّ كَثِيْـرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۗ وَالَّـذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الـذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَـهَا فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ فَبَشِّرْهُـمْ بِعَذَابٍ اَلِيْـمٍ (سورۃ التوبۃ 34)
ترجمہ : اے ایمان والو! بہت سے عالم اور درویش لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔

اس آیت میں ارشاد ہوا ہے جن لوگوں نے سونا چاندی جمع کیا اور اس کو اللہ کی راہ میں صرف کرنے سے گریز کیا، قیامت کے روز ان کی پیشانی، پشت اور پہلو کو اسی گرم کیے ہوئے سونے چاندی سے داغا جائے گا ۔ علامہ اقبال نے اسی حوالے سے اور دوسرے زاویے سے یہی بات کہی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ دوزخ بجائے خود گرم نہیں ہے بلکہ جب بداعمال اور گنہگار لوگ وہاں بھیجے جاتے ہیں تو ان کی بداعمالیاں ہی شعلے بن کر انہیں جلاتی ہیں ۔ 

اقبال   کہتے ہیں  :

میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی
حیرت انگیز تھا جوابِ سروش
معانی: کیفیت: حالت، صورت حال ۔ حیرت انگیز: حیرانی بڑھانے والا ۔ سروش: فرشتہ ۔
مطلب: میں نے ایک فرشتے سے اس سرد ترین مقام کے بارے میں استفسار کیا تو اس کا جواب بے حد حیران کن تھا ۔
یہ مقامِ خنک جہنم ہے
نار سے، نور سے تہی آغوش
معانی: نار: آگ ۔ نور: روشنی ۔ تہی آغوش: جس کے گود خالی ہو، مراد خالی ۔ جہنم: دوزخ ۔
مطلب: فرشتے نے کہا کہ یہی سرد مقام جہنم ہے جو ہر نوع کی جو ہر طرح کی حرارت اور روشنی سے خالی ہے ۔
شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے
جن سے لرزاں ہیں مردِ عبرت کوش
معانی: مستعار: دوسروں سے مانگے ہوئے ۔ لرزاں : کانپنے والا ۔ مردِ عبرت کوش: دوسروں کے برے انجام سے سبق لینے والا انسان ۔
مطلب: اس کے وہ شعلے جن سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ خوفزدہ ہیں عملاً مانگے کے ہوتے ہیں ۔
اہلِ دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے اَنگار ساتھ لاتے ہیں
معانی: انگار: شعلے، آگ ۔ اپنے ساتھ لانا: مراد اپنے بُرے اعمال آگ کی صورت میں لانا ۔
مطلب: البتہ یہ ضرور ہے کہ جو گنہگار یہاں سزا کے طور پر لائے جاتے ہیں وہ اپنے حصے کی آگ اور شعلے بھی ہمراہ لاتے ہیں ۔
____________________________________

٤١-   اللہ نور السموات والارض 

اقبال   کہتے ہیں  :
خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے
جہاں روشن ہے نورِ لا الٰہ سے
معانی: خرد: عقل ۔ لا الہ: کلمہ طیبہ کی طرف اشارہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔
مطلب: اگر ہم جہان کو چاند اور سورج کی اس گردش کے اعتبار سے دیکھیں جس کی وجہ سے اس میں شام اور صبح ہونے کا عمل جاری ہے تو جہان کا وجود مادہ کی وجہ سے نظر آئے گا ۔ اگر جہان کو اس طرح دیکھنے والی عقل اپنی راہ چھوڑ کر وجدان کی راہ اختیار کرے اور دل کی نظر سے اسے دیکھے تو اس پر یہ راز کھل جائے گا کہ جہان سورج اور چاند کی وجہ سے روشن نہیں ہے بلکہ لا الہ کے نور سے روشن ہے ۔

 
فقط اک گردشِ شام و سحر ہے
اگر دیکھیں فروغِ مہر و مہ سے
معانی: فقط: صرف ۔ فروغ: چمک دمک ۔ مہر: سورج ۔ مہ: چاند ۔
مطلب: چاند ستاروں اور سورج کی روشنی بھی اسی نور سے پیدا ہوئی ہے ۔ اس رباعی میں اقبال نے مادہ پرستوں کے اس نظریہ کو پیش کرتے ہوئے کہ جہان مادہ سے پیدا ہواے ہے ۔ اس کی نفی کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ جہان اللہ تعالیٰ کے نور کی وجہ سے موجود ہے ۔ کائنات اور اس کی ہر شے کو اگر دل کی آنکھ وا کر کے دیکھا جائے تو ہمیں ہر ذرہ میں اس کے خالق اللہ تعالیٰ کے نور کا ظہور ملے گا ۔ قرآن کریم کی آیت اللہ نور السموات والارض (اللہ زمینوں آسمانوں کا نور ہے) اسی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

اَللّهُ نُـوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ مَثَلُ نُـوْرِهٖ كَمِشْكَاةٍ فِيْـهَا مِصْبَاحٌ ۖ اَلْمِصْبَاحُ فِىْ زُجَاجَةٍ ۖ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّـهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُـوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَكَادُ زَيْتُـهَا يُضِيٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّوْرٌ عَلٰى نُـوْرٍ ۗ يَـهْدِى اللّـٰهُ لِنُـوْرِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللّـٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ (سورۃ النور 35)
ترجمہ : اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے، قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارا ہے زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو، روشنی پر روشنی ہے، اللہ جسے چاہتا ہے اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

____________________________________

٤٢-   کم لبثتم

اقبال   کہتے ہیں  :
مہ و سالت نمی ارزد بیک جو
بحرف کم لبثتم غوطہ زن شو
مطلب: اس ظاہری زمانے کے ماہ و سال ایک جو کی قیمت کے برابر نہیں ہیں ۔ اگر تو اس حقیقت کو سمجھنا چاہتا ہے تو کم لبثتم کے حرف میں غوطہ زنی کر (قرآن مجید اس آیت روز حشر خدا گنہگاروں سے پوچھے گا کہ تم دنیا میں کتنا عرصہ رہے ۔ وہ کہیں گے صرف ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ) اس آیت سے ظاہر ہے کہ زمانہ ماہ و سال کی قید سے آزاد ہے اور ناقابل اعتبار ہے ۔

وَكَذٰلِكَ بَعَثْنَاهُـمْ لِيَتَسَآءَلُوْا بَيْنَـهُـمْ ۚ قَالَ قَـآئِلٌ مِّنْـهُـمْ كَمْ لَبِثْتُـمْ ۖ قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُـمْۚ فَابْعَثُـوٓا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٓ ٖ اِلَى الْمَدِيْنَةِ فَلْيَنْظُرْ اَيُّـهَآ اَزْكـٰى طَعَامًا فَلْيَاْتِكُمْ بِـرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِـرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا ( سورۃ الکھف 19)
ترجمہ : اور اسی طرح ہم نے انہیں جگا دیا تاکہ ایک دوسرے سے پوچھیں، ان میں سے ایک نے کہا تم کتنی دیر ٹھہرے ہو، انہوں نے کہا ہم ایک دن یا دن سے کم ٹھہرے ہیں، کہا تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنی دیر تم ٹھہرے ہو، اب اپنے میں سے ایک کو یہ اپنا روپیہ دے کر اس شہر میں بھیجو پھر دیکھے کون سا کھانا ستھرا ہے پھر تمہارے پاس اس میں سے کھانا لائے اور نرمی سے جائے اور تمہارے متعلق کسی کو نہ بتائے۔

____________________________________

٤٣-  ھن لباس لکم و انتم لباس لھن

اقبال   کہتے ہیں  :

درمعنی ایں کہ بقاے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اسلام است 
(نوع انسانی کی بقا امومت (عورت کی مامتا )سے ہے اور امومت کا حفظ و احترام اسلام ہے)

پوشش عریانی مردان زن است
حسن دلجو عشق را پیراہن است
مطلب: قرآن مجید کے بیان کے مطابق عورتیں مردوں کی برہنگی کو چھپانے کے لیے لباس ہیں دل لبھانے والا حسن عشق کے لیے پیراہن بن گیا ۔ یہاں قرآن مجید کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے ھن لباس لکم و انتم لباس لھن۔ معنی عورتیں تمہار لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو ۔

اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَـةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُـمْ لِبَاسٌ لَّـهُنَّ ۗ (187)
ترجمہ : تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں سے مباشرت کرنا حلال کیا گیا ہے، وہ تمہارے لیے پردہ ہیں اور تم ان کے لیے پردہ ہو،
_________________________________

٤٤-  انا عرضنا

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَـهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْـهَا وَحَـمَلَـهَا الْاِنْسَانُ ۖ اِنَّهٝ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا (72) ↖
ترجمہ : ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی پھر انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور اسے انسان نے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم بڑا نادان تھا۔

اقبال   کہتے ہیں  :
چہ گویم از من و از توش و تابش
کند انا عرضنا بے نقابش
مطلب: میں من اور اس کی قوت اور تجلی کے بارے میں کیا بتاؤں (کیونکہ الفاظ میں اس کا اظہار مشکل ہے) لیکن اس بات کو آیت قرآنی ضرور بے نقاب کرتی ہے ۔ قرآن کی سورہ ۳۳ کی آیت کہتی ہے ، ہم نے آسمانوں ، زمینوں اور پہاڑوں پر امانت پیش کی انھوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا ۔ اس سے ڈر گئے لیکن آدمی نے اسے اٹھا لیا ۔ اس بار امانت کے بارے میں عارفان الہٰی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔

____________________________________

٤٥-   أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ

اقبال   کہتے ہیں  :
درمعنی این کہ توسیع حیات ملیہ از تسخیرقواے نظام عالم است (توسیعِ حیاتِ ملی نظام عالم کی تسخیر قویٰ کا نام ہے)

حق جہان را قسمت نیکان شمرد
جلوہ اش با دیدہَ مومن سپرد
مطلب: اللہ کا فیصلہ یہی ہے کہ دنیا نیکوں کا حصہ ہے ، اس کا جلوہ مومن کی آنکھ کے حوالے کیا گیا ۔ یہاں اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ ، بیشک یہ زمین میرے نیک بندوں کی وراثت ہے ۔

{ وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ} [الأنبياء: 105]
ترجمہ : اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین پر مالک ہوں گے میرے نیک بندے۔(از معارف القرآن)
____________________________________

٤٦-   یوم النشور

اقبال   کہتے ہیں  :

مصلحتاً کہہ ديا ميں نے مسلماں تجھے
تيرے نفس ميں نہيں، گرمي يوم النشور

مطلب:  میں نے تجھے صرف اپنی مصلحت یا فائدے کی خاطر مسلمان کہہ دیا۔ (یعنی دل سے نہیں مانا یا تمہارا عمل مسلمانی والا نہیں تھا۔)  تیرے اندر وہ جوش، وہ تڑپ یا وہ پختہ یقین نہیں ہے جو قیامت کے دن (یوم النشور) کے تصور سے ایک سچے مسلمان میں ہونا چاہیے۔ اس سے مراد ایمان کی وہ گرمجوشی اور آخرت کی فکر ہے جو انسان کو نیک عمل پر ابھارتی ہے۔ اقبال اس شخص کو مخاطب کر رہے ہیں جو نام کا  تو مسلمان ہے لیکن اس کے کردار، عقیدے یا روح میں وہ حقیقی اسلامی جوش، آخرت کا خوف یا نیک عملی کا جذبہ نہیں جو ایک سچے مسلمان کی پہچان ہے۔ گویا یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کسی کو زبانی کلامی مسلمان کہنا ایک الگ بات ہے، اور اس کے اندر اسلامی روح کا ہونا بالکل مختلف۔


 وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ ﴿٩ فاطر﴾

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ﴿١٥ الملك﴾

____________________________________

مذکورہ بیان کے علاوہ بھی کلام ِ اقبالؒ میں بے شمار قرآنی آیات،تلمیحات، تمثیلات اور تشبیہات و استعارات موجود ہیں جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں- مزید برآں! قرآن کریم اور فکرِ اقبالؒ ایسا ضخیم اور عمیق موضوع ہے جس کے بیان کیلئے دفتر کے دفتر کم ہیں اور جسے سمجھنے کیلئے صرف علمی تنوع نا کافی ہے بلکہ وسیع القلبی اور روحانی فکرو نظر کا ہونا بھی لازم ہے -



No comments:

Post a Comment

Popular Posts