وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے - عظیم بیگ عظیم

 وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے


ؔمرزا عظیم بیگ عظیم کا شعر ہے:

شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے


اسی حوالے سے مروجہ شعر اس طرح مشہور ہے:

گرتے ہیں شاہ سوار ہی میدانِ جنگ میں

وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے


مرزا عظیم بیگ کا ذکر محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب "آبِ حیات" میں کیا ہے ایک محفل میں سید انشاء کے ساتھ مرزا عظیم بیگ بھی تھے، اس ذکر کا خلاصہ کچھ یوں ہے.


"ان لوگوں میں مرزا عظیم بیگ تھے کہ "سودا" کی شاگردی اور پرانی مشق کے گھمنڈ نے ان کا دماغ بہت بلند کر دیا تھا، وہ فقط شد بد (معمولی) کا علم رکھتے تھے مگر خود کو ہندوستان کا صائب (ایران کا اک مشہور شاعر) کہتے تھے، ایک دن انہوں نے مرزا ماشاء الله خاں (انشا کے والد) کے سامنے ایک غزل سنائی جو بحرِ رجز میں تھی مگر ناواقفیت سے کچھ شعر بحر ِرمل میں جا پڑے تھے، سید انشاء تاڑ گئے اور بہت تعریف کی اور اسرار کیا کہ مرزا صاحب اس کو آپ مشاعرے میں ضرور پڑھیں. انھوں نے پڑھی اور انشاء نے وہیں ان سے تقطعی کی فرمائش کر دی. اس غریب پر جو کچھ گزری سو گزری مگر انشاء نے ایک مخمس پڑھا جس کا مطلع یہ ہے:


گر تو مشاعرے میں صبا آج کل چلے

کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے

اتنا بھی حد سے اپنی نہ باہر نکل چلے

بحر ِرجز میں ڈال کے بحرِ رمل چلے


مرزا عظیم بیگ نے گھر جا کر اس کا جواب لکھا جس کا ایک بند حاضر ہے


موضونی و معنی میں پایا نہ تم نے فرق

تبدیلیِ بحرسے ہوئے بحرِ خوشی میں غرق

روشن ہے مثل مہر یہ از غرب تا بہ شرق

شہزور اپنے زور میں گرتا ہے مثل ِبرق

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے


No comments:

Post a Comment

Popular Posts