گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں -
فیض احمد فیض
اگست 1952
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں
ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچ کچھ سحر کے رنگ پرافشاں ہوئے تو ہیں
ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں
ہاں کج کرو کلاہ کہ سب کچھ لٹا کے ہم
اب بے نیاز گردش دوراں ہوئے تو ہیں
اہل قفس کی صبح چمن میں کھلے گی آنکھ
باد صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں
ہے دشت اب بھی دشت مگر خون پا سے فیضؔ
سیراب چند خار مغیلاں ہوئے تو ہیں
مأخذ :
کتاب : Nuskha Hai Wafa (Pg. 159)
No comments:
Post a Comment