سرمہ ہے ميری آنکھ کا خاک مدينہ و نجف
علامہ اقبال
میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں
ڈھُونڈ چُکا میں موج موج، دیکھ چُکا صدف صدف
عشقِ بُتاں سے ہاتھ اُٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگارِ دَیر میں خُونِ جگر نہ کر تلَف
کھول کے کیا بیاں کروں سِرِّ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ با شرف، مرگ حیاتِ بے شرف
صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پہ ہُوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سربکف
مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درختِ طُور سے آتی ہے بانگِ’ لاَ تَخَفْ‘
خيرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے ميری آنکھ کا خاک مدينہ و نجف
No comments:
Post a Comment