نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
مضطر خیرآبادی
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے نام سے منسوب یہ اشعار ان کے نہیں بلکہ جاوید اختر کے دادا مضطر خیرآبادی کے ہیں۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکی میں وہ ایک مشت غبار ہوں
(جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں) (یہ مصرع یوں بھی پڑھا جاتا ہے)
نہ دواۓ درد جگر ہوں میں نہ کسی کی میٹھی نظر ہوں میں
نہ ادھر ہوں میں نہ ادھر ہوں میں نہ شکیب ہوں نہ قرار ہوں
مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں
پے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع لا کے جلائے کیوں کہ میں بے کسی کا مزار ہوں
نہ میں لاگ ہوں نہ لگاؤ ہوں نہ سہاگ ہوں نہ سبھاؤ ہوں
جو بگڑ گیا وہ بناؤ ہوں جو نہیں رہا وہ سنگار ہوں
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے آپ سن کے کریں گے کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
نہ میں مضطرؔ ان کا حبیب ہوں نہ میں مضطرؔ ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
No comments:
Post a Comment