ایک منظوم خط - شعیب کیانی

 ایک منظوم خط

شعیب کیانی


خودکشی کر رہے ہو

کرو

نوٹ بھی لکھ کے جاؤ گے

وہ بھی لکھو

ہاں مگر اک بڑا مسئلہ ہے

کہ جلدی میں لکھے ہوئے نوٹ میں

تم جو بچپن سے اب تک بھگت آئے ہو

سب نہیں آئے گا

نوٹ میں

ماسٹر کی چھڑی

دوستوں کی دغا بازیاں

گھر کے جھگڑوں سے زخمی ہوئی نفسیات

اور امیدوں کی لاشیں نہیں آئیں گی

نوٹ میں وہ بدن بھی نہیں آئیں گے

جن کی خواہش میں تم روز مرتے رہے

نوٹ میں فطری جذبے نہیں آئیں گے

جو کسی ضابطے یا عقیدے یا مذہب کے

ڈر کے تلے دب گئے

نوٹ میں ایک ہی رنگ و مذہب کے لوگوں میں جو

زر کی مقدار کا فرق ہے وہ نہیں آئے گا

نوٹ میں تم کوئی اک سبب خودکشی کا لکھو گے

جو شاید سبب ہی نہ ہو

تم کسی شخص محبوب یا دوست کو

آخری کال پیغام یا خط میں بتلاؤ گے

تم کو اس کے رویے نے توڑا ہے

اور وہ رویہ بھی شاید ارادی نہ ہو

پھر کوئی تو طریقہ نکالو گے

جس سے زمانے کو یہ بات سمجھا سکو

خودکشی قتل ہے

خودکشی قتل ہے

یہ مجھے تو پتا ہے

مگر یار من

پوسٹ مارٹم میں ایسا نہیں آئے گا

تو پھر ایسا کرو

نوٹ ہی نہ لکھو

کال بھی نہ کرو

بلکہ ایسا کرو

خودکشی مت کرو

جو مسائل تمہیں اس نہج پر لے آئے ہیں

وہ سب کے سب

اور بھی کتنے لوگوں کو درپیش ہیں

ان سے بھی پوچھ لو

مجھ کو لگتا ہے سب مل کے سوچیں

تو سارے مسائل کا حل بھی نکل آئے گا

خودکشی بزدلی تو نہیں ہے مگر

اور بھی کتنے رستے لڑائی کے ہیں


https://www.rekhta.org/nazms/ek-manzuum-khat-khud-kushii-kar-rahe-ho-shoaib-kiani-nazms?lang=ur 

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

Popular Posts