شب فراق تھی ہم ذکر یار کرتے رہے
شوکت واسطی
شب فراق تھی ہم ذکر یار کرتے رہے
خزاں سے اخذ نشاط بہار کرتے رہے
نکل کے پھول سے بو رم نہ کر سکے جیسے
ہم اپنے آپ سے ایسے فرار کرتے رہے
کبھی ثواب بھی سرزد ہوا تو بے منشا
کبھی گناہ بھی بے اختیار کرتے رہے
جو بات بر سر منبر نہ کر سکا واعظ
تمہارے دوست وہ بالائے دار کرتے رہے
بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی رہی
بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے رہے
تمام عمر تری آرزو رہی ہم کو
تمام عمر ترا انتظار کرتے رہے
کہاں گئے وہ ندیمان خاص جو شوکتؔ
ہمیشہ عہد وفا استوار کرتے رہے
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق