اک ستارہ جو کہکشاں ہو گیا - ربیعہ امجد

 اک ستارہ جو کہکشاں ہو گیا

ربیعہ امجد


یہ جو مسافر ہیں

انہیں گھر سے نکلے ہوئے

ایک زمانہ بیت گیا ہے

سرحد کی پگڈنڈیوں پر دوڑتے دوڑتے

ان کے پاوٴں گرد آلود ہیں

مگر ان کے پرُ  عزم چہرے

فرطِ  شوق سے چمک رہے ہیں

تھکن کے کوئی آثار نہیں

یوں دکھائی دیتا ہے کہ

زندگی اپنے جوبن پر ہے

اِ ک جستجو جو بیٹھنے نہیں دیتی

اِ ک طلب جو رگ و جاں کے

ہر ریشے میں سما گئی ہے

اس عجب موڑ پہ آکہ

موت بھی زندگی سے گھبرا گئی ہے

رات بھی جاگتے جاگتے سو جاتی ہے

مگر گردشِ  دوراں کی

نبض تھامے ہوئے یہ گمنام چہرے

برسوں سے جاگ رہے ہیں

وقت کوئی بھی کھیل کھیلے

بازی جو بھی رُ خ بدلے

اِ ک بات تو طے ہے

اگر اِ ن مسافروں کے چلتے قدم رُ ک گئے

اِ ن کا سفر تھم گیا

تو اِ س دھرتی پہ شاید

ہر ایک کو سفر پہ نکلنا ہو گا

کہیں یہ حادثہ نہ ہو

اِ سی لئے تو جاگ رہے ہیں

یہ جو مسافر ہیں


ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

Popular Posts