گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے - فیض احمد فیض

 گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے

فیض احمد فیض

منگلمری جیل 29جنوری 1954


گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو

کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے

کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز

کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب

گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

Popular Posts