کیا مِلا اِقبال ساجِدؔ جدّتِ فن بیچ کر- اِقبال ساجِدؔ

کیا مِلا اِقبال ساجِدؔ جدّتِ فن بیچ کر

اِقبال ساجِدؔ

 مرحوم اِقبال ساجِدؔ بھی اُن شعراء میں شامل ہیں جن کی وجہ سے بہت سے افراد خود کو شاعر کہلوانے میں کامیاب ہُوئے مگر اِقبال ساجِدؔ نے خود بدنامیاں سمیٹیں،اِقبال ساجِدؔ اپنے کلام کو بہت کم داموں فروخت کر دیتا تھا، اپنے کلام فروخت کرنے پر جو اُن کو دُکھ ہوا وہ اِس غزل میں محسوس کیجئے گا


کیا مِلا اِقبال ساجِدؔ جدّتِ فن بیچ کر

اب گزر اوقات کر،دانتوں کا منجن بیچ کر


کھول لے بازار میں، چہرے سجانے کی دُکان

وقت ہے پیسہ کما لے، رنگ و روغن بیچ کر


تُو نے جو لکھا ہے، اُسکو کوڑا کرکٹ ہی سمجھ

پیٹ کا دوزخ بُجھا سوچوں کا ایندھن بیچ کر


میں کوئی "یوسف” نہیں جو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں

کچھ نہ پائے گا، مُجھے اے میرے دُشمن بیچ کر


مُفت میں تیرے دکھوں کا کون گاہگ بن گیا؟

کس کے ہاتھوں تو چلا آیا ہے اُلجھن بیچ کر؟


دوسروں کو اپنی ویرانی کا کیوں الزام دوں؟

آپ ہی صحرا خریدا اس نے گُلشن بیچ کر


میرا پیراہن پہن کر لوگ شہرت پا گئے

میں تو ننگا ہو گیا، اپنا نیا پَن بیچ کر


عزتیں اُن کو ملیں، جن کی کوئی عزت نہ تھی

ہم کہ رسوائی کا باعث ہو گئے، فَن بیچ کر


ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

Popular Posts