‏إظهار الرسائل ذات التسميات WIP. إظهار كافة الرسائل
‏إظهار الرسائل ذات التسميات WIP. إظهار كافة الرسائل

دل یا شکم - اقبال

 

اقبال

دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامان موت

فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم



عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زِیر و بم
عشق سے مٹّی کی تصویروں میں سوزِ وم بہ دم
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گُل میں جس طرح بادِ سحَرگاہی کا نَم
اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم
دل کی آزادی شہنشاہی، شِکَم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم!
اے مسلماں! اپنے دل سے پُوچھ، مُلّا سے نہ پوچھ
ہوگیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم


جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہَوا دینے لگے - ثاقب لکھنوی

اس دین کی فطرت میں قدرت کے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
(صفی لکھنوی)

اس کو ناقدری¿ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
(برج نرائن چکبست)

افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے
(آزاد انصاری)

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہَوا دینے لگے
(ثاقب لکھنوی)

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکے مَیں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
مضطر خیر آبادی

Popular Posts