عجیب سانحہ اہل قلم پہ گزرا ہے
پیرزادہ شرَفِ عالم
جو آس تھی مجھے ان سے وہ آس ہی نہ رہی
مجھے تو علم تھا ، پر ان کو آگہی نہ رہی
جسے میں اپنی متاع حیات سمجھا تھا
وہ مل گیا تو میرے پاس زندگی نہ رہی
عجیب سانحہ اہل قلم پہ گزرا ہے
ہے روشنائی تو موجود روشنی نہ رہی
تمام عمر حصا ر انا نہیں ٹوٹا
کچھ ایسا زعم تھا خود پر کہ بندگی نہ رہی
مرا لہو تھا جو سارے چراغ روشن تھے
’’پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘
چمن سے جب ہوا ہم سوختہ بختوں کا گزر
شجر کی شاخ بھی کوئی ہری بھری نہ رہی
صدا لگائو کہاں میر و ذوق غالب ہیں
یہ لوگ کہتے ہیں اب جگ میں شاعری نہ رہی
عجیب حبس شرف ؔ یوم آخرت کو ملا
میں لوٹ جاتا مگر راہ واپسی نہ رہی
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق