پھینک یوں پتھر کہ سطحِ آب بھی بوجھل نہ ہو - اقبال ساجد

پھینک یوں پتھر کہ سطحِ آب بھی بوجھل نہ ہو

اقبال ساجد


پھینک یوں پتھر کہ سطحِ آب بھی بوجھل نہ ہو

 نقش بھی بن جائے اور دریا میں بھی ہلچل نہ ہو

  کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے

 آنکھ کو ایسے جھپک، لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو

  ہے سفر درپیش، تو پرچھائیں کی انگلی پکڑ

 راہ میں تنہائی کے احساس سے پاگل نہ ہو

  پہلی سیڑھی پر قدم رکھ، آخری سیڑھی پہ آنکھ

 منزلوں کی جستجو میں رائیگاں اک پل نہ ہو

  ذہن خالی ہوگئے ہیں وقت کے احساس سے

 سامنے وہ مسئلہ رکھ، جس کا کوئی حل نہ ہو

  جستجو اس پیڑ کی کیوں نہ ہو کہ جو سایہ نہ دے

 ہاتھ اس ڈالی پہ کیا پہنچے کہ جس پر پھل نہ ہو

  سب کے ہی سینوں میں ہے پھیلا ہوا سانسوں کا حبس

 کوئی شہر ایسا نہیں، جس کی فضا بوجھل نہ ہو

  روز و شب لگتا رہے سوچوں کا میلہ ذہن میں

 شور سے خالی کبھی احساس کا جنگل نہ ہو

  لوگ اکثر اپنے چہروں پر چڑھا لیتے ہیں خول

 تُو جسے سونا سمجھتا ہے، کہیں پیتل نہ ہو

  گرم کر ساجد لہو کو، دھیمی دھیمی آنچ سے

 وقت سے پہلے ترے جذبات میں ہلچل نہ ہو 

 

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

Popular Posts