ناگزیر- امجد اسلام امجد

ناگزیر

 امجد اسلام امجد 


یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدربھی دراز کر لے​

میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیوں گا​

مجھے پتہ ہے کہ ایک جگنو کے جاگنے سے​

یہ تیرگی کی دبیز چادر نہیں کٹے گی ​

مجھے خبر ہے کہ میری بے زور ٹکروں سے​

فصیلِ دہشت نہیں ہٹے گی​

میں جانتا ہوں کہ میرا شعلہ​

چمک کے رزقِ غبار ہو گا​

تو بے خبر یہ دیار ہو گا​

میں روشنی کی لکیر بن کر​

کسی ستارے کی مثل بکھروں گا​

بستیوں کو خبر نہ ہو گی​

میں جانتا ہوں کہ میری کم تاب​

روشنی سے سحر نہ ہو گی​

مگرمیں پھر بھی سیاہ شب کا​

غبار بن کر نہیں جیوں گا​

کرن ہو کتنی نحیف لیکن کرن ہے پھر بھی​

وہ ترجماں ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے​

اور جب تک​

یہ روشنی کا وجود زندہ ہے رات اپنے​

سیاہ پنجوں کو جس قدربھی درازکر لے​

کہیں سے سورج نکل پڑے گا​

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

Popular Posts