حبسِ دنیا سے گزر جاتے ہیں
محسن
حبسِ دنیا سے گزر جاتے ہیں
ایسا کرتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
کیسے ہوتے ہیں بچھڑنے والے
ہم یہ سوچیں بھی تو ڈر جاتے ہیں
دل جو ٹوٹے توا سر محفل بھی
بال بے وجہ بکھر جاتے ہیں
اب نا دیکھو میری بنجر آنکھیں
چڑھتے دریا تو اتر جاتے ہیں
دھوپ کا روپ رچانے والے
شام کو اور نکھر جاتے ہیں
اب نہ مڑ مڑ کے پُکاروں انکو
لوگ رستے میں ٹہر جاتے ہیں
خالی دامن سے شکایت کیسی
اشک آنکھوں میں تو بڑھ جاتے ہیں
تم کہاں جاؤ گے سوچو محسن
لوگ تھک ہار کے گھر جاتے ہیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق