ز جانم نغمهٔ «الله هو» ریخت
چو گرد از رختِ هستی چار سو ریخت
بگیر از دستِ من سازی که تارش
ز سوزِ زخمه چون اشکم فرو ریخت
(علامہ اقبال، ارمغانِ حجاز فارسی)
[میری روح کے ساز سے نغمۂ "الله ہو" نکلا ک
ہ ہستی کا سارا سامان گرد ہو کر چار سو بکھر گیا۔
(اے میرے ہم نوا!) تُو بھی میرے ہاتھ سے وہ ساز پکڑ لے کہ
جس کے تار مضراب کے سوز سے میرے آنسوؤں کی طرح نیچے گر گئے ہیں۔]
No comments:
Post a Comment