بغاوت
حضرت مولانا امین الرحمٰن عامر عثمانی (1920 تا 1975)
مولانا عامر عثمانی (1920-1975) اردو ادب کے ایک ممتاز شاعر، ادیب، محقق، اور صحافی تھے، جن کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے تھا۔ ان کی نظم "بغاوت" ان کی شاعری کی ایک اہم تخلیق ہے، جو ان کے ماہنامہ "تجلی" میں شائع ہوئی اور ان کے نظریاتی جوش، سماجی شعور، اور طنزیہ انداز کی عکاسی کرتی ہے۔ نظم "بغاوت" سماجی، سیاسی، اور مذہبی ظلم کے خلاف ایک علامتی احتجاج ہے۔ اس کا عنوان ہی اس کے موضوع کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ عامر عثمانی نے اس نظم میں رجعت پسند قوتوں کے خلاف جدوجہد کو ایک عظیم مقصد کے طور پر پیش کیا ہے۔ نظم میں "بغاوت" ایک ایسی آواز ہے جو سماجی تبدیلی، نظریاتی آزادی، اور انصاف کے لیے اٹھتی ہے۔
آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے
میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف
میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے
My old style of speech is alive
Even today against the unholy practices of cruelty
Rebellion is alive in my chest
جبر-و-سفاکی-و-طغیانی کا باغی ہوں میں
نشئہ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں
I am a rebel of human strength
جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانون
ظلم-و-عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون
تشنگی نفس کے جزبوں کی بجھانے کے لئے
نو انساں کے بنائے ہوئے کالے قانون
Laws molded in the mint of oppression and aggression
To quench the thirst of the soul
Nine man-made black laws
ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھے
ان سے ہر سانس میں تحریک بغاوت ہے مجھے
I am revolted by them in every breath
تم ہنسوگے کہ یہ کمزور سی آواز ہے کیا
جھنجھنایا ہوا، تھرّایا ہوا ساز ہے کیا
جن اسیروں کے لیے وقف ہیں سونے کے قفس
ان میں موجود ابھی خواہشِ پرواز ہے کیا
What is a jingling, trembling wind instrument?
Gold cages dedicated to captives
Do they still have the desire to fly?
آہ! تم فطرتِ انسان کے ہمراز نہیں
میری آواز، یہ تنہا میری آواز نہیں
My voice, it's not my voice alone
انگنت روحوں کی فریاد ہے شامل اس میں
سسکیاں بن کے دھڑکتے ہیں کئ دل اس میں
تہ نشیں موج یہ توفان بنیگی اک دن
نہ ملیگا کسی تحریک کو ساحل اس میں
Sobs are beating because the heart is in it
This wave will become a storm one day
No movement will find shore in it
اسکی یلغار میری زات پے موقوف نہیں
اسکی گردش میرے دن رات پے موقوف نہیں
His circulation does not stop in my day and night
ہنس تو سکتے ہو، گرفتار تو کر سکتے ہو
خوار رسوا سرِ بازار تو کر سکتے ہو
اپنی قہار خدائی کی نمائش کے لئے
مجھے نزرِ رسن-و-دار تو کر سکتے ہو
You can do disgraceful market
To display his divine wrath
You can give me a look
تم ہی تم قادرِ مطلق ہو، خدا کچھ بھی نہیں؟
جسمِ انساں میں دماغوں کے سوا کچھ بھی نہیں
There is nothing in the human body except brains
آہ یہ سچ ہے کہ ہتھیار کے بل بوتے پر
آدمی نادر-و-چنگیز تو بن سکتا ہے
ظاہری قوت-و-سطوت کی فراوانی سے
لینن-و-ہٹلر-و-انگریز تو بن سکتا ہے
A man can become a Nadir-and-Genghis
From the abundance of outward force and power
Lenin-and-Hitler-and-English can be
سخت دشوار ہے انسان کا مکمّل ہونا
حق-و-انصاف کی بنیاد پے مکمّل ہونا
To be complete on the basis of right and justice.
Link: مولانا عامر عثمانی:آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے-مہتاب عزیز - Daleel.Pk
No comments:
Post a Comment