غزل
واصف علی واصفؔ
ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب
کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
جس
آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے
اس کے سوا تیرے دیدار کی صُورت
اشکوں
نے بیاں کر ہی دیا رازِ تمنّا!
ہم
سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت
دل
ہاتھ ہی رکھّا ہے کوئی ہے جو خریدے؟
دیکھوں
تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت!
صُورت
میری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی!
نظروں
میں بسی رہتی ہے سرکارؐ کی صورت
واصفؔ
کو سرِدار پُکارا ہے کسی نے
انکار
کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت
No comments:
Post a Comment