کام حرص و ہوس کا تھوڑی ہے - علی تاصف

 کام حرص و ہوس کا تھوڑی ہے

علی تاصف


کام حرص و ہوس کا تھوڑی ہے

عشق ہر اک کے بس کا تھوڑی ہے

وہ مری دسترس میں ہے لیکن

مسئلہ دسترس کا تھوڑی ہے

آہ آزاد چھوڑ دے کہ میاں

یہ پرندہ قفس کا تھوڑی ہے

تا بہ کے سر پہ آسمان اٹھائیں

ہجر یک دو نفس کا تھوڑی ہے

اب تو بس صور پھونکئے کہ یہ کام

اب صدائے جرس کا تھوڑی ہے

اپنی تنہائی چھوڑ دوں کیوں کر

ساتھ اک دو برس کا تھوڑی ہے

جست بھرنے کا وقت ہے تاسفؔ

وقت یہ پیش و پس کا تھوڑی ہے

هناك تعليق واحد:

Popular Posts