جینے والے قضا سے ڈرتے ہیں
زہر پی کر دوا سے ڈرتے ہیں
تجھ کو آواز دیں یہ تاب کہاں
ہم خود اپنی صدا سے ڈرتے ہیں
زاہدوں کو کسی کا خوف نہیں
صرف کالی گھٹا سے ڈرتے ہیں
آپ جوبھی کہیں ہمیں منظور
لیک بندے خدا سے ڈرتے ہیں
شعلۂ آشیاں کی فکر نہیں
ہم تو موجِ ہوا سے ڈرتے ہیں
دشمنوں کے ستم کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں
عزم و ہمت کے باوجود شکیل
عشق کی ابتداء سے ڈرتے ہیں
شکیل بدایونی

أحدث أقدم