پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون
میرا سر حاضر ہے لیکن میرا منصف دیکھ لے
کر رہا ہے میری فرد جرم کو تحریر کون
میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون
نیند جب خوابوں سے پیاری ہو تو ایسے عہد میں
خواب دیکھے کون اور خوابوں کی دے تعبیر کون
ریت ابھی پچھلے گھروندو ں سے نہ واپس آئی تھی
پھر لب ساحل گھروندا کر گیا تعمیر کون
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پر پہلا تیر کون
پروین شاکر۔