ڈھاکہ سے واپسی پر
فیض
نے یہ نظم 1974 میں ڈھاکہ سے واپسی پر لکھی
ہم کہ
ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر
بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر
میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے
دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت
بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں
بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو
چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے
شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے
جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے
ان کہی
ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
مأخذ
:
کتاب :
Nuskha Hai Wafa (Pg. 538)