درمعنی این کہ توسیع حیات ملیہ از تسخیرقواے نظام عالم است
(توسیعِ حیاتِ ملی نظام عالم کی تسخیر قویٰ کا نام ہے)
مطلب: اے مسلمان تو نے ان دیکھی ذات سے بندگی کا عہد باندھ رکھا ہے یعنی تو غیب پر ایمان لا چکا ہے اور تیری حیثیت وہی ہے جو سیل کی ہوتی ہے اور وہ کناروں کی کوئی پروا نہیں کرتا ۔
مطلب: تو درخت کی طرح باغ کی مٹی سے نکل کر سر بلند ہو ، دل ذات غائب سے پیوستہ رکھ اور جو حاضر و موجود ہے اس سے جنگ شروع کر دے(غائب سے اشارہ اللہ تعالیٰ کی طرف اور حاضر سے کائنات کی طرف ہے ۔ کائنات سے لڑنے کا مقصد یہ ہے کہ اسے زیر نگیں کیا جائے ۔ ) ۔
مطلب: حاضر کی ہستی غیب کی تفسیر ہے اور اسے مسخر کر لینے کے بعد غیب کی تسخیر کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے اور حاضر کی تسخیر غیب کی تسخیر کا دیباچہ ہے ۔
مطلب: خدا کے سوا جو موجودات ہے وہ اسی لیے ہے کہ اسے تسخیر کیا جائے اور اس کا سینہ تیروں کا نشانہ ہے ۔
مطلب: اللہ تعالیٰ نے کن کہا اور یہ دنیا پیدا ہو گئی ۔ اسی لیے پیدا ہوئی کہ تیرا پیکان اہرن کو توڑتا ہوا نکل جائے ۔ یعنی ماسوا اہرن ہے اور انسان کا پیکان اس لیے ہے کہ ماسوا کو تسخیر کیا جائے ۔
مطلب: رشتہ ایسا چاہیے جس میں گرہوں پر گرہیں پڑی ہوئی ہوں تاکہ اسے کھولنے میں زیادہ لطف آئے ۔
مطلب: تو غنچہ ہے تو اپنے آپ کو باغ سمجھ ، تو شبنم ہے تو سورج کو قبضے میں لا ۔
مطلب: اگر تو یہ زیبا کام ا نجام دے سکے تو تیرا گرم سانس برف کے شیر کو پگھلا سکتا ہے ۔
مطلب: جس نے محسوسات کو تسخیر کر لیا وہ ایک ذرے سے دنیا تعمیر کر سکتا ہے ۔
مطلب: وہ جس کے تیر سے قدسیوں کا سینہ زخمی ہو گیا ۔ اس نے سب سے پہلے آدم کو فتراک میں باندھا ۔
مطلب: اس نے محسوس کی گتھی سب سے پہلے سلجھائی ، پھر موجود کی تسخیر میں حوصلہ و ہمت کی آزمائش کی ۔
مطلب: یہ پہاڑ ، صحرا، دشت ، دریا، تری ، خشکی کیا ہیں صاحبان نظر کے لیے تعلیم کی تختیاں ہیں ۔
مطلب: اے مسلمان تو افیون کے اثر سے سو گیا ۔ اس دنیا کو جو عالم اسباب ہے ہیچ کہتا ہے ۔
مطلب: اٹھ اور خمار آلود آنکھیں کھول اس عالم مجبور کو ہیچ نہ کہہ ۔
مطلب: اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کی ذات توسیع پائے اور اس کے ممکنات کی آزمائش کی جا سکے یعنی دیکھا جاسکے کہ اس میں کتنی قوت کتنی صلاحیت ہے ۔
مطلب: زمانہ تیرے بدن پر بار بار تلوار مار رہا ہے تاکہ تجھے دیکھ سکے کہ تیرے بدن میں خون ہے یا نہیں ۔
مطلب: سینے کو ورزش کے پتھر سے زخمی کر لے اور اپنی ہڈیوں کی آزمائش کر ۔
مطلب: اللہ کا فیصلہ یہی ہے کہ دنیا نیکوں کا حصہ ہے ، اس کا جلوہ مومن کی آنکھ کے حوالے کیا گیا ۔ یہاں اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ ، بیشک یہ زمین میرے نیک بندوں کی وراثت ہے ۔
مطلب: یہ دنیا قافلے کے گزرنے کا راستہ ہے لیکن مومن کے پاس جو کچھ ہے اس کی جانچ پرکھ کے لیے یہ کسوٹی ہے ۔
مطلب: اسے قابو میں لا تاکہ تجھے قابو میں نہ لے آئے ۔ اگر اسے موقع مل گیا تو یہ تجھے شراب کی طرح مٹکے میں ڈال کر رکھے گی ۔
مطلب: تیری فکر کے گھوڑے کو طوطی کے پر لگے ہوئے ہیں اور اس کا قدم آسمان کی وسعت کے برابر ہے ۔
مطلب: اسے زندگی کی ضرورتیں چلا رہی ہیں ۔ اگر خود زمین سے وابستہ ہے لیکن آسمان کی پیمائش کر رہا ہے ۔
مطلب: اس کا مقصد یہ ہے کہ نظام کائنات کی قوتوں کو تسخیر کر لے اور تیری ہنر مندیوں کے جوہر درجہ کمال پر آشکار ہو جائیں
مطلب: اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آدمی کو دنیا میں خدا کی نیابت مل جائے گی اور عناصر پر اس کی حکمرانی کا سلسلہ مستحکم ہو جائے گا ۔
مطلب: اے مخاطب تیری تنگی اس دنیا میں پھیلاوَ اختیار کرتاکہ تیرا کام آراستہ ہو جائے ۔
مطلب: تو ہوا کی پشت پر سوار ہو اور اس سانڈنی کے نکیل ڈال لے ۔
مطلب: پہاڑوں کے خون سے ہاتھ رنگ لے اور موتی کی آب و تاب کی ندی سمندر سے نکال ، یعنی پہاڑوں اور دریاؤں میں قدرت کے پوشیدہ خزانے تلاش کر ۔
مطلب: ایک ایک فضا میں سینکڑوں جہان چھپے ہوئے ہیں ۔ ایک ایک ذرے میں سورج پنہاں ہیں ۔
مطلب: اس کیکرن کی روشنی سے ان دیکھے دیکھ لے اور جو بھید ابھی تک سمجھے نہیں گئے انھیں کھول دے تا کہ سب سمجھ لیں ۔
مطلب: تو دنیا کو روشن کرنے والے سورج سے چمک دمک لے لے ۔ پانی کے سیل سے وہ بجلی پیدا کر جو گھروں کو روشن کر دے ۔
مطلب: یہ اجرام کو ثابت اور سیار کہلاتے ہیں یعنی ستاروں کے دو گروہ جن میں سے ایک کو ٹھہرا ہوا اور دوسرے کو پھرنے والا قرار دیتے ہیں آسمان ان کا وطن ہے زمانہ قدیم کی قو میں انہیں کو معبود سمجھ کر پوجا کرتی تھیں ۔
مطلب: اے انسان اگر تو اپنی حقیقی حیثیت کا اندازہ کر لے تو یہ سب تیری لونڈیاں ، کنیزیں ، خدمت گار اور غلام ہیں ۔
مطلب: تو ہمت اور حوصلہ سے کام لے اور تلاش جاری رکھ اور تدبیروں سے تلاش کو نتیجہ خیز بنا ۔ تیرا نصب العین یہ ہے کہ انفس اور آفاق کو مسخر کر ے یعنی اس کائنات کی مادی اور معنوی قوتوں پر قابو پا لے ۔
مطلب: اپنی آنکھ کھول اور اشیاء کی حقیقت پر نظر ڈال ۔ تیری نظر میں اتنی تیزی اور گہرائی ہونی چاہیے کہ شراب کے پردے میں نشہ دیکھ سکے ۔
مطلب:تجھے معلوم ہے کہ اشیا کی حقیقت حیثیت کا صحیح اندازہ کر لیا جائے تو نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ نکلتا ہے کہ کمزور آدمی طاقتوروں سے خراج وصول کرتے ہیں ۔
مطلب: یہ کائنات بظاہر سادہ نظر آتی ہے لیکن معنویت سے خالی نہیں ۔ اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ یہ پرانا ساز اب اس قابل نہیں رہا کہ اسے چھیڑ کر نغمہ پیدا کیا جا سکے ۔
مطلب: اس سے ایسے نغمے نکالے جا سکتے ہیں جن میں بجلی کی طاقت ہو لیکن شرط یہ ہے کہ اسے ہنر مندی سے بجایا جائے اور بجانے والا مضراب بن کر اس کے تار چھیڑے ۔
مطلب: تو دیکھ کے خطاب کا مقصود ہے یعنی تجھے نظر سے صحیح کام لینے کی تاکید کی گئی ہے ۔ پھر تو اندھوں کی طرح یہ راستہ کیوں طے کرتا ہے
مطلب: جو قطرہ اپنے آپ کو روشن رکھنے کا راز جانتا ہو وہ انگور کی رگوں میں شراب اور پھول کی پنکھڑیوں پر شبنم بن جاتا ہے ۔
مطلب: پھر سمندر میں پہنچتا ہے تو موتی کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اسکے جوہر ستارے کی طرح چمک اٹھتے ہیں ۔
مطلب: تو صبا کی طرح پھولوں کی ظاہری صورت ہی کے اردگرد چکر کاٹنے میں نہ لگا رہ ۔ اس باغ کی حقیقت میں بھی غوطہ لگا ۔
مطلب: جن لوگوں نے اشیاء پر کمندیں پھینکیں اور ان کی حقیقت معلوم کر لی انھوں نے بجلی یا حرارت سے چلنے والی سواریاں تیار کر دیں ۔
مطلب: وہ حرف کو پرندے کی طرح پرواز میں لے آئے اور ساز سے مضراب کے بغیر نغمے پیدا کرنے لگے ۔
مطلب: اے مسلمان تیری سواری کا گدھا زندگی کے مشکل راستے کی وجہ سے لنگڑا ہو گیا ہے اور تو زندگی کی رزم و پیکار کے ہنگامے سے بالکل ناواقف ہے ۔
مطلب: تیرے ہم سفر منزل کی طرف بڑھ گئے ۔ انھوں نے حقیقت کی لیلیٰ کو محمل سے نکال لیا ہے ۔
مطلب: تو صحرا میں قیس کی طرح خستہ، عاجز، بے بس اور آوارہ پھر رہا ہے ۔
مطلب: تو غور کر کہ علم اسماء کی بنا پر آدمی کی عزت و حرمت ہے اور اشیاء کی حقیقی حیثیت کا اندازہ کر لینے ہی پر آدمی کی حفاظت موقوف ہے جس طرح شہر کی حفاظت فصیل کے ذریعے سے ہوتی ہے ۔
إرسال تعليق