حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا - عرفان صدیقی

 حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

عرفان صدیقی

2002 میں گجرات فساد کے پس منظر میں کہی گئی غزل


حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا


جب حشر اسی زمیں پہ اٹھائے گئے تو پھر

برپا یہیں پہ روز جزا کیوں نہیں ہوا


وہ شمع بجھ گئی تھی تو کہرام تھا تمام

دل بجھ گئے تو شور عزا کیوں نہیں ہوا


واماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں

دروازہ آسمان کا وا کیوں نہیں ہوا


وہ شعلہ ساز بھی اسی بستی کے لوگ تھے

ان کی گلی میں رقص ہوا کیوں نہیں ہوا


آخر اسی خرابے میں زندہ ہیں اور سب

یوں خاک کوئی میرے سوا کیوں نہیں ہوا


کیا جذب عشق مجھ سے زیادہ تھا غیر میں

اس کا حبیب اس سے جدا کیوں نہیں ہوا


جب وہ بھی تھے گلوئے بریدہ سے نالہ زن

پھر کشتگاں کا حرف رسا کیوں نہیں ہوا


کرتا رہا میں تیرے لیے دوستوں سے جنگ

تو میرے دشمنوں سے خفا کیوں نہیں ہوا


جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں

جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا


No comments:

Post a Comment

Popular Posts