نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے

ہے اہلِ دل کے لئے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد 

بہت ہےطلم کہ دستِ جو کے لئے
جو چند اہلِ جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں

مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں

بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی

غرض تصورِ شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفت سایۃدیوار و در میں جیتے ہیں

یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے، نہ اپنی جیت نئی

اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج میں ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

جو تجھ سے عہدِ وفا استعار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں



فیض احمد فیض
Previous Post Next Post