تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کر بہلایا گیا ہوں

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں

لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں

سویرا ہے بہت اے شور محشر
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں

قدم اٹھتے نہیں کیوں جانب دیر
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں

کجا میں اور کجا اے شاد دنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں
Previous Post Next Post