منتخب اشعار – بڑے یقین سے دیکھی تھی ہَم نے صبح امید
واصف علی واصفؔ
(1929ء -1993ء)
تُوؐ
نظر پھیرے تو طوفاں زندگی!
تُو
نظر کردے تو بیڑا پار ہے!
----
واصفؔ
مجھے ازل سے ملی منزلِ ابد
ہر
دور پر محیط ہوں جس زاویے میں ہوں
----
جلوۂ
ذات سے آگے تھی فقط ذات ہی ذات
بندگی
رقصِ سرِ دار سے آگے نہ بڑھی
----
بڑے
یقین سے دیکھی تھی ہَم نے صبح امید
قریب
پہنچے تو واصف وہ روشنی نہ رہی
----
اپنے
شاداب حسیں چہرے پہ مغرور نہ ہو
زرد
چہروں پہ جو لکھے ہیں سوالات سمجھ
----
میں
آرزوئے دید کے کِس مرحلے میں ہوں
خود
آئینہ ہوں یا میں کسی آئینے میں ہوں
----
وہ
آنسوؤں کی زُبان جانتا نہ تھا واصفؔ
مجھے
بیان کا نہ تھا حوصلہ ، میں کیا کرتا
----
قاتل
بھی یار تھے میرے مقتول بھی عزیز
واصفؔ
میں اپنے آپ میں نادم بڑا ہوا
----
چلے
ہو ساتھ تو ہمّت نہ ہارنا واصفؔ
کہ
منزلوں کا تصوّر میرے سفر میں نہیں
----
خرد
کو ہونا ہے رُسوائے ہر جہاں واصفؔ
جنوں
کی صُبح درخشاں، جنوں کی شام حسیں
----
میرے
غم خانہء خیال میں آ
حُسنِ
کامل ذرا جلال میں آ
----
کُھلی
جو آنکھ پسِ مرگ تو یہ راز کُھلا!
کہ
ایک خواب کے عالم میں خواب تھے کتنے
----
واصفؔ
یہ کس مقام پہ لایا مُجھے جنوں!
اب
اُن کی جستجو ہے نہ اپنی تلاش ہے
واصفؔ
جہانِ فکر کی تنہائیاں نہ پُوچھ!
اہلِ
قلم کے واسطے خلوت بھی انجمن
----
مجھ
کو تو مرے اپنے ہی دل سے ہے شکایت
دُنیا
ہے گِلہ کوئی نہ شکوہ ہے خُدا سے
----
کب
رات کٹے کب ہو سحر کہہ نہیں سکتے
کب
ہو گا دعاؤں میں اثر کہہ نہیں سکتے
----
واصفؔ
دیارِ عشق میں لازم ہے خامشی!
مر
کر بھی لب پہ آئے نہ ہر گز گِلے کی بات
---
نہ
آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں
میں
حرفِ کُن ہوں فرمایا گیا ہوں
----
ملا
ہے جو مقدّر میں رقم تھا
زہے
قسمت مرے حصؔے میں غم تھا
----
میرا
نام زینتِ داستاں، مَیں کسی کے حسن کا پاسباں
میں
کسی کی بزم کا ہوں نشاں، میں دیارِ یار کی بات ہوں
No comments:
Post a Comment