https://www.facebook.com/916296035389300/photos/a.917472425271661/1002638173421752/


#اسرارِخودی

#فارسی

انتظارِ صبح خیزاں می کشم
اے خوشا ذرتشتیان آتشم

نغمہ ام از زخمہ بے پروا ستم
من نوائے شاعر فزدا ستم

عصر من دانندہ اسرار نیست
یوسف من بہر ایں بازار نیست

ناامید استم ز یاران قدیم
طور من سوزد کہ می آید کلیم

قلزم یاراں چو شبنم بے خروش
شبنم من مثل یم طوفاں بدوش

#ترجمہ

میں صبح سویرے بیدار ہونے والوں کا منتظر ہوں۔میری آگ کے پجاریوں کا کیا کہنا یا میری آگ کے پجاری کیا مبارک ہیں۔

میں نغمہ ہوں اور مضراب سے بے نیاز ہوں ۔میں مستقبل کے شاعر کی نوا (آواز ) ہوں۔

میرا زمانہ اسرار ( رازوں) سے آگاہ نہیں ہے۔میرا یوسف (شاعری) اس بازار کے لیے نہیں ہے۔

اپنے پرانے رفیقوں سے میں مایوس ہو چکا ہوں ۔میرا طور جل رہا ہے کہ کلیم آئے ۔

یاروں کا سمندر شبنم کی طرح طوفان سے عاری ہے۔جبکہ میری شبنم سمندر کی طرح طوفان بدوش ہے۔"

#وضاحت

پہلے شعر میں علامہ اقبال نے اپنے کلام کا اثر لینے والوں کو صبح سویرے بیدار ہونے والوں سے تشبیہ دی ہے کہ یہ صحیح بیداری کی علامت ہے۔اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو یہ کلام پڑھ کر بیدار ہو جائیں اور ملت کو ذلت و پستی اور غلامی سے نجات دلانے کی خاطر جدوجہد کریں۔زرتشتی آتش پرستوں کو کہا جاتا ہے۔جس طرح زرتشتی صبح سویرے آگ کی طرف جاتے ہیں اسی طرح جو لوگ علامہ کے افکار و نظریات کی قدر و قیمت کو پہچانتے ہیں ان کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔وہ نہ صرف خود عمل کر کے اپنی زندگی سنوارتے ہیں بلکہ اپنی قوم کے نجات کا بھی بندوبست کرتے ہیں۔

دوسرے شعر میں انہوں نے خود کو ایسے نغمے سے تشبیہ دی ہے جیسے آواز کی صورت دینے کے لیے کسی مضراب یعنی موسیقی کی ضرورت نہیں۔جس طرح کوئی نغمہ اپنی تاثیر سے سامع کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اسی طرح ان کے کلام کا قاری بھی اسی طرح متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔دوسرے مصرعے میں انہوں نے خود کو مستقبل کے شاعر کی نوا کہا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ آج تو کم لوگ ان کے کلام کی طرف متوجہ ہیں لیکن آنے والا زمانہ ان پر توجہ کرے گا اور اسے صحیح طور پر سمجھے گا۔اگرچہ خو اقبال کے زمانے میں بھی لوگ ان کے کلام کی طرف متوجہ ہوئے لیکن اس میں شک نہیں کہ پہلے کی نسبت بعد میں ان کے کلام نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

تیسرے شعر میں فرماتے ہیں کہ میرا زمانہ، جو حقائق میں بیان کررہا ہوں اس سے آگاہ نہیں ہے۔اپنے کلام کو یوسف سے تشبیہ دی کہ جس یوسف کا کوئی خریدار نہیں تھا۔اسی طرح ان کے کلام کو سمجھنے اور اس کا اثر لینے والے نظر نہیں آتے۔ہر جینیئس کو یہ شکوہ رہا ہےکہ اسکا دور اس کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر رہا ہے۔انے والا دور اس کی قدر جانے گا۔یہی حقیقت حال علامہ اقبال کے اس شعر میں بیان ہوئی ہے۔اردو کلام میں بھی ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکاصدف صدف

چوتھے شعر میں فرماتے ہیں کہ میں اپنے پرانے رفیقوں سے مایوس ہو چکا ہوں۔یعنی جیسا پیغام علامہ اقبال نے اپنی ملت کو دیا ان سے پہلے کسی نے بھی نہیں دیا۔اور وہ انہی روایات میں جھگڑے ہوئے تھے جن کی بنیاد ان کے آباؤ اجداد ڈال گئے تھے۔وہ اس ڈگر سے ہٹ کر کچھ سوچنے ، سمجھنے اور سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ان کو وہی کلام اور وہی بات اچھی لگتی جو ان کے ذوق کے مطابق تھی۔اس لیے اقبال فرماتے ہیں کہ میں اپنے پرانے رفیقوں سے مایوس ہو چکا ہوں۔اب میرے کلام کو سمجھنے کے لیے بھی اسی سوز، جنون کی ضرورت ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اندر تھی۔

آخری شعر میں علامہ اقبال نے اپنے ہمعصر شعراء کے کلام کو ایسے سمندر سے تشبیہ دی ہے جس میں کوئی طوفان نہیں بالکل اسی طرح خاموش ہے جس طرح شبنم ہوتی ہے۔یعنی ان کے کلام میں وہ گرمی نہیں وہ وحدت نہیں جو ملت میں ایک عظیم انقلاب پیدا کر دے۔جبکہ ان کا اپنا کلام جو بظاہر شبنم کی مانند ہے اپنے اندر سمندروں کا طوفان لیے ہوئے ہے۔یعنی اگر لوگ علامہ اقبال کے کلام کو سمجھ جائیں تو وہ ایک ایسا انقلاب لے آئیں گے وہ ماضی میں ہمارے آباؤ اجداد کے حصے میں آیا تھا۔

اس سے پہلی پوسٹ کا لنک

https://www.facebook.com/916296035389300/posts/1001979040154332/

زندہ رود ZINDA ROOD


Post a Comment

Previous Post Next Post