ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟ - اقبال

 ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟ 

اقبال  

 (Armaghan-e-Hijaz-19)


 ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟

خُودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے؟

عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں

تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟

Thy river keeps not, no tempest why?
To be a Muslim why fails ego thy?
Second Version:In thy river why there rises no gales?
To be a Muslim why thy ego fails.
Of fate why you’re weeping solate,
You are ‘not why’ the God’s own fate.


شرح:

اقبال  سوال کرتے ہیں کہ تمہاری زندگی، تمہارے معاشرے، تمہارے افکار و اعمال میں وہ جوش و خروش، وہ ولولۂ انقلابی، وہ بیداری کیوں نہیں ہے جو کبھی تمہارا وصفِ امتیازی تھا؟کیا تمہارا وجود اتنا خاموش، جامد، اور بےاثر ہو چکا ہے کہ تمہارے اندر کوئی طوفان نہیں اٹھتا؟فرماتے ہیں کہ تم مسلمان کہلاتے تو ہو، لیکن تمہاری خودی، تمہارا باطن، تمہاری روح میں اسلام کی سچائی اور غیرت موجود نہیں۔ایمان، خودی کی روشنی ہے، جو تمہارے اندر معدوم ہو چکی ہے, یعنی تمہارا "ظاہر" تو مسلمان ہے، لیکن "باطن" مسلمان نہیں۔ تمہاری خودی غلامی، کم ہمتی اور بے یقینی کا شکار ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ اگر تم خود بیدار نہیں ہو، خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہو، تو پھر تقدیر کو کوسنا بے معنی ہے۔تقدیر کو بدلنے کی طاقت انسان کو دی گئی ہے , اللہ کی سنت تب بدلتی ہے جب بندہ خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرے, یعنی تقدیر کا شکوہ کرنا ایک کمزور انسان کا رویہ ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ اگر تو اپنی خودی کو بیدار کر لے، اگر تو مومنِ کامل بن جائے، تو اللہ کی تقدیر کا مظہر بن سکتا ہے۔تو دنیا کی تقدیر بدلنے والا بن سکتا ہے۔یعنی ایک سچا مومن خود تقدیر کا رخ موڑنے کی قوت رکھتا ہے, تو محض تقدیر کا شکار نہیں، بلکہ تقدیر کو بدلنے والا بن!


کتاب: ارمغان حجاز


#KhudiSeries

No comments:

Post a Comment

Popular Posts