کہیں بھی ہو وہ ستارہ یہاں سے دور نہیں

نشیبِ حلقۂ صحنِ مکاں سے دور نہیں

کہیں بھی ہو وہ ستارہ یہاں سے دور نہیں

حدِ "سپہر" و "بیاباں" پہ جاگتی ہوئی لو

جو ہم سے دور ہے، آئندگاں سے دور نہیں

گزرنے والی ہے گلیوں سے بادِ برگ آثار

کہ اب وہ صبح مِری داستاں سے دور نہیں

اسی کے حرفِ نگفتہ سے گونجتے در و بام

جو دور رہ کے بھی پہنائے جاں سے دور نہیں

سحاب و سبزۂ نمناک سے گزرتی ہوئی

یہ شام چشمۂ ریگِ رواں سے دور نہیں

میں اپنے حجرۂ تاریک تر میں رہ کر بھی

سرشتِ حلقۂ آوارگاں سے دور نہیں

مگر وہ شاخِ تہی رنگ و بستۂ دیوار

جو گلستاں سے الگ ہے خزاں سے دور نہیں


ثروت حسین

Post a Comment

Previous Post Next Post