اپنے ہونے پر مجھ کو یقین آ گیا
پگھلے نیلم سا یہ بہتا ہوا سما
نیلی نیلی سی خاموشیاں
نہ کہیں ہے زمین ، نہ کہیں ہے آسمان
سرسراتی ہوئی ٹہنیاں، پتیاں
کہ رہی ہیں کی بس تم ہو یہاں
صرف میں ہوں
میری سانسیں ہیں اور میری دھڑکنیں
ایسی گہرایاں ، ایسی تنہائیاں
اور میں، صرف میں
اپنے ہونے پر مجھ کو یقین آ گیا
================================================
یہ جانے کیسا راز ہے
اک بات ہونٹوں تک ہے جو آئ نہیں
بس آنکھوں سے ہی جھانکتی
تم سے کبھی ، مجھ سے کبھی
کچھ لفظ ہیں وہ مانگتی
جنکو پہن کے ہونٹوں تک آ جائے وہ
آواز کی بانہوں میں بانہیں ڈال کے اٹھلاۓ وہ
لیکن جو یہ اک بات ہے
احساس ہی احساس ہے
خوشبو ہے جیسی ہوا میں تیرتی
خوشبو جو بے آواز ہے
جسکا پتا تم کو بھی ہے
جس کی خبر مجھ کو بھی ہے
دنیا سے بھی چھپتا نہیں
یہ جانے کیسا راز ہے
================================================
دل آخر تو کیوں روتا ہے
جب جب درد کا بادل چھایا
جب غم کا سایہ لہرایا
جب آنسو پلکوں تک آیا
جب یہ تنہا دل گھبرایا
ہم نے دل کو یہ سمجھایا
دل آخر تو کیوں روتا ہے؟
دنیا میں یوں ہی ہوتا ہے
یہ جو گہرے سناٹےہیں
وقت نے سب کو ہی بانٹے ہیں
تھوڑا غم ہے سب کا قصّہ
تھوڑی دھوپ ہے سب کا حصّہ
آنکھ تیری بیکار ہی نم ہے
ہر پل اک نیا موسم ہے
کیوں تو ایسے پل کھوتا ہے
دل آخر تو کیوں روتا ہے
================================================
تو زندہ ہو تم
دلوں میں اپنے تم اپنی بیتابیاں لے کے چل رہے ہو
تو زندہ ہو تم !
نظر میں خوابوں کی بجلیاں لے کے چل رہے ہو
تو زندہ ہو تم !
ہوا کے جھونکوں کے جیسے آزاد رہنا سیکھو
تم اک دریا کے جیسےلہروں میں بہنا سیکھو
ہر اک لمحے سے تم ملو کھولے اپنی بانہیں
ہر اک پل اک نیا سما دیکھیں یہ نگاہیں
جو اپنی آنکھوں میں حیرانیاں لے کے چل رہے ہو
تو زندہ ہو تم !
دلوں میں اپنے تم اپنی بیتابیاں لے کے چل رہے ہو
تو زندہ ہو تم !