شبینہ ادیب

میری امید میرا پیار میری آس رہو 

تم مجھے چھوڑ کے مت جاﺅ میرے پاس رہو

روزی روٹی کیلئے اپنا وطن مت چھوڑو

جس کو سینچا ہے لہو سے وہ چمن مت چھوڑو

جا کے پردیس میں چاہت کو ترس جاﺅ گے

ایسی بے لوث محبت کو ترس جاﺅ گے

پھول پردیس میں چاہت کا نہیں کھلتا ہے 

عید کے دن بھی گلے کوئی نہیں ملتا ہے 

میں کبھی تم سے کروں گی نہ کوئی فرمائش

عیش و آرام کی جاگے گی نہ دل میں خواہش

فاطمہ بی بی کی باندی ہو بھروسہ رکھو

میں تمھارے لئے جیتی ہوں بھروسہ رکھو

لاکھ دکھ درد ہوں ہنس ہنس کے گزر کر لوں گی

پیٹ پر باندھ کے پتھر بھی بسر کر لوں گی

تم مجھے چھوڑ کے مت جاﺅ میرے پاس رہو


تم اگر جاﺅ گے پردیس سجا کر سپنا 

اور جب آﺅ گے چمکا کے مقدر اپنا 

میرے چہرے کی چمک خاک میں مل جائے گی 

میری زلفوں سے یہ خوشبو بھی نہیں آئے گی

ہیرے اور موتی پہن کر بھی نہ سج پاﺅں گی

سرخ جوڑے میں بھی بے باسی نظر آﺅں گی

تم مجھے چھوڑ کے مت جاﺅ میرے پاس رہو

درد فرقت غم تنہائی نہ سہہ پاﺅں گی 

میں اکیلی کسی صورت بھی نہ رہ پاﺅں گی

میرے دامن کیلئے باغوں میں کانٹے نہ چنو

تم نے جانے کی اگر ٹھان لی ہے دل میں تو سنو

اپنے ہاتھوں سے مجھے زہر پلا کر جانا

میری مٹی کو بھی مٹی میں ملا کر جانا

Post a Comment

Previous Post Next Post