کچھ پُرانے یار مِل جائیں نئے
لاہور میں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں لوگوں سے بھرے لاہور میں
کچھ
پُرانے یار مِل جائیں نئے لاہور میں
مَیں نے
مَنَّت مان لی ہے آج داتا کے حضور
دیکھنا
تُم جلد واپس آؤ گے لاہور میں
دانہ
پانی ڈھونڈنے سب جابسے ہیں دُور دیس
کیا
زمانہ تھا کہ سارے دوست تھے لاہور میں
فیض،
مَنٹو اور مُنیر، اقبال، ناصر اور ندیم
ہائے
کیا کیا ولولے آباد تھے لاہور میں
دو ہی
شہروں میں ہیں اچھی آنکھیں، ہندوستانیو !
یا
تمہارے لکھنؤ میں یا مِرے لاہور میں
آپ شاید
بھول بیٹھے ہیں، مُجھے تو یاد ہے
ایک بار
آنکھیں مِلی تھیں آپ سے لاہور میں
جانے کس
آسیب کا سایہ ہے میرے شہر پر
آج کل لگتے نہیں ہیں قہقہے لاہور میں
No comments:
Post a Comment