مصطفی زیدی ـ یہ ہے میری کہانی
یہ ہے میری کہانی
خاموش زندگانی
سناٹا کہہ رہا ہے
کیوں ظلم سہہ رہا ہے
اک داستاں پرانی
تنہائی کی زبانی
ہر زخم کھل رہا ہے
کچھ مجھ سے کہہ رہا ہے
چھبتے کانٹے یادوں کے
دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں
بس یہ میری کہانی
بے نشاں نشانی
اک درد بہہ رہا ہے
کچھ مجھ سے کہہ رہا ہے
چھبتے کانٹے یادوں کے دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں
بجائے پیار کے شبنم میرے گلستاں میں
برستے رہتے ہیں ہر سمت موت کے سائے
سیاہیوں سے الجھ پڑتی ہیں میری آنکھیں
کوئی نہیں کوئی بھی نہیں جو بتلائے
میں کتنی دیر اجالوں کی راہ دیکھوں گا
کوئی نہیں ہے کوئی بھی نہیں نہ پاس نہ دور
اک پیار ہے دل کی دھڑکن
اپنی چاہت کا جو اعلان کیے جاتی ہے
زندگی ہے جو جیے جاتی ہے
خون کے گھونٹ پیے جاتی ہے
خواب آنکھوں سے سیے جاتی ہے
اب نہ کوئی پاس ہے
پھر بھی احساس ہے
راہیوں میں الجھی پڑی
جینے کی اک آس ہے
یادوں کا جنگل یہ دل
کانٹوں سے جل تھل یہ دل
چھبتے کانٹوں یادوں کے دامن سے چنتا ہوں
گرتی
دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں